ETV Bharat / state

Sir Syed Ahmad And Bhopal سرسید احمد خان کا بھوپال سے تعلق

author img

By

Published : Oct 17, 2022, 3:50 PM IST

آج یعنی 17 اکتوبر کو جہاں پورا ملک سرسید احمد خان کے یوم پیدائش پر جشن منا رہا ہے۔ وہیں بھوپال میں بھی اس سلسلہ میں تقریبات کا دور جاری ہے۔ سرسید احمد خان اور بھوپال کا ایک اہم اور خاص رشتہ رہا ہے۔ جانتے ہیں بھوپال سے ان کا تعلق کب اور کیسا رہا ہے۔ Sir Syed Ahmad Khan Relation to Bhopal

Sir Syed Ahmad And Bhopal
Sir Syed Ahmad And Bhopal

بھوپال: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خان کی ولادت 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں اور انتقال 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوا۔سر سید احمد خان نے اٹھارہ سو ستاون کی تحریک آزادی کے بعد ہندستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے جدید تعلیم کے لیے آواز بلند کی تھی۔ سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک پر اس وقت ملک کے بڑے حصہ میں نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ اسے اسلامی تعلیم کے خلاف بھی قرار دیا گیا تھا۔

سرسید احمد خان کا بھوپال سے تعلق

یہ بھی پڑھیں:

ایک ایسے وقت میں جب ہر سو سر سید کی تعلیمی تحریک کی مخالفت کی جارہی تھی اس وقت ریاست بھوپال کی عوام اور یہاں کے حکمراں نے سر سید کی تعلیمی تحریک پر لبیک کہا تھا۔ سر سید احمد خان بھوپال کی تیسری خاتون فرماں روا نواب شاہ جہاں بیگم کے عہد میں بھوپال آئے۔ بھوپال کے تاج محل میں سر سید کا نواب شاہ جہاں بیگم نے استقبال کیا اور ان کی تعلیمی تحریک کے خاکہ کو سننے کے بعد انہیں نقد رقم کے ساتھ اپنی الماس کی انگوٹھی بھی تحفہ میں دی تھی۔
سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک سے صرف نواب شاہ جہاں بیگم ہی نہیں بلکہ ان کے بعد نواب سلطان جہاں بیگم اور ان کے فرزند نواب حمید اللہ خاں بھی وابستہ رہے۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے ہر طرح سے سرسید کی تعلیمی تحریک کی معاونت کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہی ہیں اور تاحیات چانسلر کے عہدے پر فائز رہی ہیں۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے مختلف موضوعات پر 42 کتابیں لکھی تھیں۔

دراصل یہی نہیں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سلطانیہ اسکول، سلطان جہاں منزل، نصر اللہ خاں ہاسٹل اور عبید اللہ خاں ہاسٹل کی بھی تعمیر کی تھی۔ سرسید کی ولادت کو 205 سال ہوگئے ہیں۔ وہ صرف جدید علوم اور مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے ہی خواہاں نہیں تھے بلکہ انہوں نے جدید اردو نثر کی بھی بنیاد ڈالی تھی۔ اس تعلق سے بھوپال کے اردو دانشور کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ تاریخی عمارتیں جنہیں سر سید کی قدم بوسی کی بھوپال کو سعادت حاصل ہوئی تھی، موجودہ وقت میں سبھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے افکار و نظریات کو عام کرنے کے ساتھ ان مقامات کو بھی سنوارا جائے جس سے جدید فکر کے علمبردار سرسید احمد خان کا روح کا رشتہ تھا۔

بھوپال: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خان کی ولادت 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں اور انتقال 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوا۔سر سید احمد خان نے اٹھارہ سو ستاون کی تحریک آزادی کے بعد ہندستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے جدید تعلیم کے لیے آواز بلند کی تھی۔ سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک پر اس وقت ملک کے بڑے حصہ میں نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ اسے اسلامی تعلیم کے خلاف بھی قرار دیا گیا تھا۔

سرسید احمد خان کا بھوپال سے تعلق

یہ بھی پڑھیں:

ایک ایسے وقت میں جب ہر سو سر سید کی تعلیمی تحریک کی مخالفت کی جارہی تھی اس وقت ریاست بھوپال کی عوام اور یہاں کے حکمراں نے سر سید کی تعلیمی تحریک پر لبیک کہا تھا۔ سر سید احمد خان بھوپال کی تیسری خاتون فرماں روا نواب شاہ جہاں بیگم کے عہد میں بھوپال آئے۔ بھوپال کے تاج محل میں سر سید کا نواب شاہ جہاں بیگم نے استقبال کیا اور ان کی تعلیمی تحریک کے خاکہ کو سننے کے بعد انہیں نقد رقم کے ساتھ اپنی الماس کی انگوٹھی بھی تحفہ میں دی تھی۔
سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک سے صرف نواب شاہ جہاں بیگم ہی نہیں بلکہ ان کے بعد نواب سلطان جہاں بیگم اور ان کے فرزند نواب حمید اللہ خاں بھی وابستہ رہے۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے ہر طرح سے سرسید کی تعلیمی تحریک کی معاونت کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہی ہیں اور تاحیات چانسلر کے عہدے پر فائز رہی ہیں۔ نواب سلطان جہاں بیگم نے مختلف موضوعات پر 42 کتابیں لکھی تھیں۔

دراصل یہی نہیں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سلطانیہ اسکول، سلطان جہاں منزل، نصر اللہ خاں ہاسٹل اور عبید اللہ خاں ہاسٹل کی بھی تعمیر کی تھی۔ سرسید کی ولادت کو 205 سال ہوگئے ہیں۔ وہ صرف جدید علوم اور مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے ہی خواہاں نہیں تھے بلکہ انہوں نے جدید اردو نثر کی بھی بنیاد ڈالی تھی۔ اس تعلق سے بھوپال کے اردو دانشور کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ تاریخی عمارتیں جنہیں سر سید کی قدم بوسی کی بھوپال کو سعادت حاصل ہوئی تھی، موجودہ وقت میں سبھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے افکار و نظریات کو عام کرنے کے ساتھ ان مقامات کو بھی سنوارا جائے جس سے جدید فکر کے علمبردار سرسید احمد خان کا روح کا رشتہ تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.