بھوپال:ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ میں اس وقت تنازعہ کھڑا ہو گیا جب ہندو تنظیم جاگرن منچ نے ضلع دموہ کے گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں ہندو بچیوں کو حجاب پہننانے کی بات کہی۔ ہندو جاگرن منچ کے سیکرٹری کرشنا تیواری نے بتایا کہ دموہ کی گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں ہماری ہندو بہن بیٹیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ان پر یہ دباؤ بنایا جاتا ہے کی اگر وہ حجاب پہن کر نہیں آئیں گے تو انہیں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ غریب ہندو طبقے بچے اسی اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ اس طرح سے لو جہاد کی سازش کر ہندو لڑکیوں کو پھنسایا جا رہا ہے۔ اسکول میں اور اسکول کے باہر جو بچیوں کی تصاویر لگائی گئی ہے اس میں صاف طور سے ہندو لڑکیاں حجاب میں نظر آرہی ہے۔ جس طرح کا کام گنگا جمنا اسکول کے ذریعے کیا جا رہا ہے ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہندو جاگرن منچ نے اس معاملے میں شامل لوگوں کو برخاست کرنے اور اسکول کی پرمیشن ختم کیے جانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ وہیں ہندو جاگرن منچ نے اسکول پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم طالبات کا اس پورے معاملے پر یہ کہنا ہے کہ اسکول کی طرف سے ہمیں حجاب پہننے کے لئے کسی بھی طرح کی زبردستی نہیں کی جاتی ہے۔ ہم جو پہنتے ہیں وہ اسکارف ہے جو اسکول کا کوڈ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلوار سوٹ اور اسکارف کو پہننے کے لئے ہمیں کبھی نہیں کہا جاتا ہے کیوںکہ ہمیں اگر یہ نہیں پہننا ہے تو ہم بغیر اسکارف بھی اسکول چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں کسی بھی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے اور وہی پڑھایا جاتا ہے جو دیگر اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ طالبہ روپالی کی والدہ لیلاوتی ساہو نے اس تعلق سے بتایا کہ ہماری بیٹی جو پہن کر جاتی ہے وہ اسکارف ہے نہ کہ حجاب، اور ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گنگا جمنا اسکول میں کسی خاص مذہب کو لے کر کوئی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے والدین نے بھی اس بات کو خارج کردیا ہے کہ گنگا جمنا اسکول میں حجاب پہنایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی ایک خاص مذہب کی تعلیم دی جا رہی ہے
وہی گنگاجمنا اسکول کے ممبر شیو دیال دوبے نے بتایا کہ میں لمبے وقت سے اس اسکول کا ممبر ہوں اور جسے حجاب بتایا جارہا ہے وہ حجاب نہیں ہے بلکہ اسکارف ہے اور اس کے لئے اسکول میں زیر تعلیم طالبات کے والدین کی اجازت سے ہی پہنیا جا رہا ہے۔ جس کے خلاف آج تک کسی بھی والدین نے اس کی کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس طرح کی آوازیں بلند کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور وہ بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:MP Hijab Controversy ہندو لڑکیوں کی اسکارف میں تصاویر آویزاں کرنے پر ہندوتوا تنظیمیں بر ہم
اسکول کے ذمہ داروں کے مطابق دموہ کی گنگا جمنا ہائیر سیکنڈری اسکول میں 65 بچے امتحانات میں بیٹھے تھے جس میں 61 طلبات نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی جو ایک بڑی کامیابی ہے۔ اسکول ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ایسا کرکے صرف مذہب کو لیکر نفرت پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اور یہ جو بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے وہ بے بنیاد ہے جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔