ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے شہر اجودھیا Ayodhya in Uttar Pradeshمیں 29 سال قبل اتوار 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد Historical Babri Mosque کو شہید کر دیا گیا تھا- آج بابری مسجد کی 29 ویں برسی کے موقع پر بھوپال کے قومی سیکولر منچ نے اس حادثے کو ملک کے لئے سیاہ دن سے تعبیر کیا-
سماجی کارکن Social worker ایل ایس ہردنیا نے کہا انیس سو بانوے میں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تھا- اس لیے ہم مانتے ہیں کہ وہ ایک عمارت کا نہیں تھا بلکہ ایک مثالی نظریے کی شہادت تھی-
انہوں نے کہا کہ ملک کے باشندگان کو نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی پیروی Follow any religion کر سکتے ہیں- اور بابری مسجد مذہبی نشانی تھی جسے مسمار کرنے کا کسی کو بھی حق نہیں تھا-- اس سے پہلے ہم اس حادثے کو National Shame مانتے ہیں- اس حادثہ میں ملک کے ساتھ بھوپال میں بھی کئی لوگوں کی جان چلی گئی تھی- اور اب لوگ اس طرح کے معاملوں میں پھر اضافہ کرنا چاہتے ہیں- کیونکہ اب متھرا میں بھی اس طرح سے عید گاہ مسجد میں کرشن کی مورتی کی بنیاد رکھنے کی بعد کی جا رہی ہے-
انہوں نے کہا جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا- اس کے بعد پارلیمنٹ میں قانون بنایا گیا تھا کہ 1947 سے پہلے کی جتنی بھی عمارتیں ہیں جس میں مذہبی مقامات بھی شامل ہے مسمار نہیں کیا جا سکتا ہے- اس کی باوجود اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کہتے ہیں ہم کرشن کی مورتی تیار کر رہے ہیں-
علی عباس امید کہتے ہیں کی چھ دسمبر کا واقعہ آئین کے خلاف تھا- بابری مسجد کی شہادت جمہوریت کا قتل تھا- انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے بعد ان لوگوں کی ذہنیت ویسی کی ویسی ہے اور یہ لوگ متھرا میں بھی اسی طرح سے کرنا چاہتے ہیں- انھوں نے کہا اس طرح کے معاملات میں عوام کے ساتھ حکومت بھی ان کا ساتھ دیتی ہے-
حاجی محمد ہارون نے کہا ملک میں دو بڑی پریشانیاں ہیں ایک ہے دہشت گردی اور دوسری ہے فرقہ پرستی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے- اور نہ ہی فرقہ پرستی کا کا کیوں کی دہشت گردی بہت سارے لوگوں میں پائی جا رہی ہے- اگر کشمیر میں دہشت گردی ہے تو North East میں بھی ہے اور نکسلائٹ بھی دہشت گردی کا ایک پہلو ہے- اور کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہو وہ ملک کے ساتھ غداری کہلاتی ہے- انہوں نے کہا اس دہشت گردی سے زیادہ خطرناک اس وقت فرقہ پرستی ہے- اس کے خلاف ملک میں غداری کا قانون لایا جانا چاہیے۔