بھوپال: زندگی سنیما نہیں ہے۔ زندگی کے اصل ہیروز کے لیے کوئی ری ٹیک نہیں ہوتا۔ غلام دستگیر کے پاس بھی ری ٹیک کا کوئی موقع نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ایکشن میں پوری رات سمیٹ دی تھی۔ ایک ایسی رات جو ان کی 2003 کی بچی بقیہ زندگی میں پر بہت زیادہ بھاری رہی۔ بھوپال ریلوے اسٹیشن پر تعینات غلام دستگیر نے گیس سانحہ کی اس رات سینکڑوں جانیں بچائیں۔ سٹیشن ماسٹر کی اس شہادت کو بھوپال شہر سمیت پوری دنیا بھول گئی… پہلے تو خود غلام دستگیر اور ان کے خاندان نے یہ برداشت کر لی۔ لیکن یہ کہانی 39 سال تک دبی رہی اور ویب سریز ''دی ریلوے مین'' سے دنیا کے سامنے آ گئی، لیکن وہ بھی آدھی ادھوری آئی۔
جس ہیرو پر اس ویب سیریز کی کہانی لکھی گئی ہے، اسی کے نام نظر انداز کر دیا گیا۔ غلام دستگیر کی موت کے بعد ان کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کو ان کا خاندان کیسے برداشت کرتا، ان کے بیٹے شاداب دستگیر نے اس معاملے پر یش راج فلمز سے کہا کہ وہ فلم ریلوے مین میں غلطیوں کو ٹھیک کریں اور اس فلم کو ہیرو کا نام ان کے والد غلام دستگیر کے نام پر رکھ کر دوبارہ ریلیز کریں۔ شاداب کا کہنا ہے کہ یہ تفریح نہیں ہے۔ یہ ایک شخص کی ایک رات میں سمٹی زندگی کی کہانی ہے جسے آنے والی نسلوں تک ایک مثال کے طور پر دیکھا اور سنا جائے گا۔ ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں شاداب نے کہا کہ اصلی واقعات میں مرچ مصالحہ ڈال کر کوئی مذاق نہیں ہوتا۔
- شاداب دستگیر کا یش راج پروڈکشن پر الزام
شاداب کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ یش راج بینر جیسے ذمہ دار پروڈکشن نے اسے اتنا اہم نہیں سمجھا کہ آپ اس ہیرو کو خراج تحسین پیش کریں جس پر آپ ویب سیریز بنا کر کمرشل فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ دی ریلوے مین کے ہیرو جس کا نام افتخار صدیقی تھا، اس کا نام غلام دستگیر رکھا جاتا، آپ گیس سانحہ بولیں گے تو بھوپال پہلے آئے گا۔ بھوپال گیس سانحہ کے ریلوے سے جڑے واقعہ کا ذکر آئے گا تو غلام دستگیر کا نام بھی سامنے آئے گا۔ اس ویب سیریز کے ذریعے ان کی قربانیوں کو مٹایا جا رہا ہے۔ آپ اس طرح ایک رات سمٹی کسی زندگی کی کہانی کو تباہ نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھیں:
SC On Bhopal Gas Tragedy بھوپال گیس سانحہ متاثرین کے لیے اضافی معاوضے کی درخواست سپریم کورٹ میں خارج
بھوپال گیس سانحہ کا مفرور مجرم ناگپور سے گرفتار
CM Shivraj Singh Chauhan بھوپال گیس سانحہ ہمارے لئے ایک ناقابل فراموش سبق، شیوراج
- جانیے اس رات کیا ہوا تھا
اس دور کو یاد کرتے ہوئے شاداب بتاتے ہیں کہ اس رات 12 بجے پاپا کی ڈیوٹی شروع ہوئی۔ چارج سنبھال لیا، چارج سنبھالنے کے بعد اس کو شروع کرنے کا ایک عمل تھا۔ کونسی ٹرین کہاں ہے؟ انہوں نے محسوس کیا کہ کافی ہنگامہ آرائی ہے، پورے اسٹیشن میں کہرام مچ گیا ہے، پلیٹ فارم نمبر ایک پر گیس لیک ہو گئی ہے اور جب وہ گیس لیک ہوئی تو سانحہ شروع ہو گیا۔ ساری کہانی صرف ایک رات کی ہے۔ وہ ٹرین جو گورکھپور ممبئی ایکسپریس آجاتی ہے، اسے کسی طرح باہر نکالنا تھا۔ کوئی سگنل آپریٹر نہیں تھا۔ اس کے ٹھہرنے کا وقفہ 25 منٹ تھا، پاپا اسے نکالنا چاہتے تھے۔ لوگ گیس کے اثرات سے گرنے لگے تھے۔ وہ کسی طرح بھاگ کر لوکو پائلٹ کے پاس جاتے ہیں اور اسے ٹرین کو آگے بڑھانے کے لیے بولتے ہیں کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پھر فوری طور پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے انٹیٹ لیٹر دیا کہ لوگ بڑے پیمانے پر مریں گے۔ پاپا نے یہ خط گارڈ کو لکھ کر دیا اور پھر پانچ منٹ کے اندر ٹرین روانہ ہوگئی۔ اگر یہ ٹرین بیس منٹ مزید رکتی تو سینکڑوں افراد مر جاتے۔ میرے والد نے سینکڑوں جانیں بچانے کے لیے پروٹوکول توڑ دیا تھا۔