مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں جمعیت العلماء کے صوبائی دفتر میں اراکین مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں جمعیت العلماء ہند کے صدر حضرت قاری عثمان کے انتقال کے بعد جمعیت کے قومی صدر کے لیے سبھی نے متفقہ طور پر مولانا محمود مدنی کے نام کی سفارش کی۔
اس کے بعد حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا کے اس وقت پورے ملک میں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر مذہب اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف بولنے کا سلسلہ جاری ہے اس پر قدغن لگنی چاہیے اور اس تعلق سے قانون بنایا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ اس میٹنگ میں اردو اساتذہ کی تقرری کے سلسلے میں حکومت مدھیہ پردیش سے مطالبہ کیا گیا کہ جہاں بھی اردو پڑھنے والے طلبا ہوں وہاں پورے صوبے میں اردو اساتذہ کی تقرری کی جائے۔ اسی طرح مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ داخلے کے وقت اپنے بچوں کی مادری زبان ہندی کی بجائے اردو لکھوایا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ شکایت بھی ملتی ہے کہ بہت سے اسکول اردو طلبا کو داخلہ نہیں دیتے اس سلسلے میں بھی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ایسی اسکولوں پر کارروائی کی جائے۔
میٹنگ میں ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہر شہر کی ایک خصوصی کاروباری صنعت ہوتی ہے۔ اس خصوصی صنعت کو بھی صوبے میں بڑھاوا دیا جائے-
اس موقع پر مدھیہ پردیش جمعیت العلما کے صدر حاجی ہارون نے اپیل کی کہ آج کل ہر کوئی مذہب اسلام کے خلاف ویڈیو اور اسی طرح کی دوسری چیزیں فیس بک اور واٹس اپ پر ڈال دیتا ہے جس سے ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں لیکن ہمیں ایسے وقت میں جذباتی نہیں ہونا چاہیے اور اس طرح کے میسجز کو آگے فارورڈ کرنے سے گریز کرنا چاہیے