بھوپال : ہمارا ملک ہندوستان 1947 میں آزاد ہوا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری آئین نافذ کیا گیا۔آئین کے نافذ ہونے کے بعد ملک میں وقف جائیداد کے رکھ رکھاؤ اور اس کے بہتر مینجمنٹ کو لے کر آوازیں اٹھنے لگیں اور جب آوازوں نے زور پکڑنا شروع کیا تو ملک میں وقف جائیداد کے تحفظ کے لیے 1954 میں وقف ایکٹ بنایا گیا۔
وقف ایکٹ میں جائیداد کے مینجمنٹ، وقفیہ جائیداد کا سروے، اس سے ہونے والی آمدنی سے اقلیتوں کے لیے فلاحی کام انجام دینے کا انتظام کیا گیا۔یکم نومبر 1956 کو ریاست مدھیہ پردیش کا قیام عمل میں آیا اور مدھیہ پردیش وقف بورڈ 1961 میں بنایا جا سکا۔ واضح رہے کی ریاست مدھیہ پردیش میں 52 اضلاع ہیں۔ان سبھی ضلعوں میں وقف جائیداد موجود ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر ضلعوں کی وقف جائیداد ناجائز قبضہ کا شکار ہے۔
غور طلب ہے کہ جہاں ان وقف جائیدادوں پر غیر مسلم طبقے کے قبضہ ہی تو ہیں۔ زیادہ تر ان وقف املاک پر مسلم سماج قابض ہیں۔انہیں سبھی حالات کو دیکھتے ہوئے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین صنور پٹیل نے آج ایک اہم میٹنگ بلوائی جس میں وقف املاک سے متعلق مقدمات جو عدالتوں
انہوںنے کہاکہ وہی ہر ماہ ہونے والے ریو یعنی تجزیہ میں چل رہے کیسز کے بارے میں معلومات لی جائیں گی جس میں ملازمین اور بورڈ کے وکلاء کو ہر صورت میں کام کی وجوہات بتانا ہوگی۔ مناسب جواب نہ دینے یا مناسب کارروائی نہ کرنے والے ملازمین اور وکلاء کے خلاف بھی کارروائی کی جائیں گی ۔
یہ بھی پڑھیں:Haj Pilgrim مدھیہ پردیش کے عازم حج کا مکہ مکرمہ میں انتقال
مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر صنور پٹیل نے وقف سے وابستہ وکلاء اور بورڈ کی قانونی شاخ میں کام کرنے والے ملازمین کی میٹنگ لی۔ اس دوران انہوں نے واضح کیا کہ بورڈ کی جانب سے اعلان کردہ وکلاء کے ذریعے مخالف پارٹی کے ساتھ مفاہمت یا سازباز کرنے اور جیتی ہوئی بازی یا مقدمہ کو ہار جانے کے حالات اب برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کا ہر ماہ جائزہ لیا جائے گا اور ان کی صورت حال پر بات کی جائے گی۔