بھوپال: پروگرام کی شروعات میں اردو اکاڈمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام مہمانوں کا استقبال کرنے کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دارا شکوہ مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے علمبردار تھے۔ ان کی شخصیت اور ان کا فن ہندوستانی تہذیب کے لیے وقف تھا۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ویدوں اور اپنیشدوں کا بھی وسیع مطالعہ کیا۔ دارا شکوہ کی شخصیت اور فن کو جاننے، سمجھنے کے بعد عوام کو خود فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کہ اُن کو اسلام کا کون سا رُخ قبول کرنا چاہیے۔ کٹر مذہبی رُخ یا صوفیوں والا مذہبی رجحان جس کے نمائندہ داراشکوہ ہیں۔ madhya pradesh urdu academy organise seminar on different-topics
سمینار کی صدارت کر رہے معروف ادیب اور مفکر ڈاکٹر نریش نے کہا کہ داراشکوہ شدت پسندی کے خلاف سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کا نمائندہ ہے. ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی تعلیمات اور فلسفے کو پڑھیں اور اس کے افکار کو سمجھیں.لکھنؤ سے تشریف لائے معروف ادیب اور شاعر ڈاکٹر عباس نیر نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب فرما کر سامعین سے خوب داد و تحسین وصول کی۔
انھوں نے کہا کہ دارا شکوہ اس ہندوستان کی ترجمانی کرتا ہے جو ویدوں کا ہندوستان ہے، جو گیتا کا ہندوستان ہے، جو وسو دیو کٹمب کم(پوری دنیا ایک خاندان ہے) کا ہندوستان ہے، جو ستیم شیوم سندرم کا ہندوستان ہے، جو میر و غالب اور مومن کا ہندوستان ہے، جو رویندر ناتھ ٹیگور کا ہندوستان ہے، جو شاعر مشرق علامہ اقبال کا ہندوستان ہے، یعنی ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر اس کی تاریخ لکھی ہے اور آپس میں شیر و شکر ہوکے زندگی گزارنے کے اسی صوفیانہ سلیقے اور فلسفیانہ شعور کا اصطلاحی نام دارا شکوہ ہے. اس کے خیالات اور فلسفے کو سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے اس صوفی پر سیمینار کا انعقاد کیا.
یہ بھی پڑھیں:Bharat Jodo Yatra ملک میں نفرت پر قابو نہ پایا گیا تو خانہ جنگی ہو سکتی ہے، اشوک گہلوت
دانشوروں نے کہا کہ دارا شکوہ اسلام اور صوفی خیالات کو وحدانیت سے جوڑ کر دیکھتا تھا کیونکہ ہندو مت / درشن میں ایک ایشور واد ہے جو توحید سے میل کھاتا ہے. وہ سبھی مذاہب کو ایک مانتا تھا، اس کا کہنا تھا نک مختلف مذاہب میں بھگوان ہیں، مگر سب کا ایشور ایک ہے. داراشکوہ اپنیشد اور ہندوستانی فلسفے کا علم رکھتا تھا. دارا اس بات کو لے کر حیران ہوتا تھا کہ سبھی مذہبوں کے مفکرین اپنی اپنی تشریحات میں الجھے رہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ان سبھی کا بنیادی عنصر تو ایک ہی ہے۔