اودھ کے تاریخی و ادبی شہر بارہ بنکی سے تقریباً 20 - 22 کلومیٹر دور تحصیل سیرولی غوث پور کے ایک قصبے میں یکم جولائی 1964 کو سید کرار علی اور سیدہ نسیم عائشہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کا والدین نے بڑے پیار سے نام رکھا سید کلیم کرار جس نے آگے چل کر شعر و ادب کی دنیا میں ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی کے نام سے نہ صرف بھارت بلکہ عالمی پیمانے پر بھی اپنے والدین اور شہر کا نام روشن کیا۔
کلیم کرار اپنے 10 بھائی اور دو بہنوں میں چھٹے نمبر پر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہے لہذا روایت کے مطابق ان کی بنیادی تعلیم کا سلسلہ پہلے گھر پھر مسجد و مکتب سے شروع ہوکر پرائمری، مڈل ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کی تعلیم اپنے شہر بارہ بنکوی سے حاصل کی اور بی اے، اے ایم اے کی ڈگری اردو لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی اور مشہور زمانہ شعر حضرت خوار بارہ بنکوی کے فن اور شخصیت پر ایم اے تحریر کیا۔
سنہ 1991 میں شہر غزل بھوپال میں ذریعہ معاش کی تلاش میں آئے اور یہاں سے شہنشاہ غزل ڈاکٹر بشیر بدر 'شخصیت اور فن' عنوان پر ڈاکٹر محمد نعمان خان کے زیر نگرانی مقالہ تحریر کر برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی کے حقیقی ماموں حضرت سرور بارہ بنکوی مشہورِ زمانہ شاعر اور ڈاکٹر ساگر عظیم ان کے عزیزوں میں تھے تو غزل کے لیجنڈ کہے جانے والے عظیم المرتبت شاعر ڈاکٹر بشیر بدر کی ادبی صحبتوں سے بھی خوب فیض یاب ہوئے اور ان کے ساتھ نہ صرف ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی مشاعرے پڑھے بلکہ ان کی شعری مجموعے بھی مرتب کیے اور ان کی کے شخصیت و فن پر تحقیق کے کام بھی انجام دیے۔
ڈاکٹر انجم بارہ بنکی کے اب تک سات شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ساتھ ہی انجم بارہ بنکوی کو ادبی انجمنوں کے ساتھ کئی بڑے ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔