اسی آرٹ کی وجہ سے ضلع بریلی کو بانس بریلی کے نام سے بھی عالمی سطح پر پہچان ملی ہے۔
لیکن ان دنوں لکڑی کے فرنیچر کی روایتی صنعت خستہ حالی کا شکار ہے۔ خاص طور پر کین فرنیچر کے حالات ایسے ہیں کہ یہ صنعت اپنے ہی ضلع میں پیر جمانے کے لیے زمین تلاشنے پر مجبور ہے۔
بریلی کے لیے بانس آسام سے درآمد کیا جاتے ہیں ۔ اس سے کُرسی، میز، صوفا اور دیگر گھریلو سامان تیار کیے جاتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق کین فرنیچر کا سالانہ کاروبار تقریباً 500 کروڑ سے زیادہ ہے۔
ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ، آسام سے بریلی تک کرایا اور پانچ فیصد جی ایس ٹی نے اس صنعت کو دو راہے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاریگر، دکاندار اور بر آمد کرنے والے کاروباری سب اس بارے میں پریشان ہے۔
ایک طرف ملک بھر میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہیں تو اس صورت حال میں امید کی جارہی ہے کہ مقامی رہنما اس صنعت کو ترقی دینے کے لیے اہم وعدے کر سکتے ہیں۔