ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کے حالات اس وقت بدتر ہیں، لاک ڈاؤن میں بیٹی کے شادی کے زیور بیچ کر کسی طرح سے گھر کی گاڑی چل رہی تھی، لیکن اب کیا کہا جائے؟ کیوں کہ اب نہ حکومت سن رہی ہے اور نہ ہی بسز کے مالک۔
بس ڈرائیور اور کنڈکٹرز کا کہنا ہے کہ پہلے روز کمائی ہوتی تھی اور روز جیب میں نوٹ ہوا کرتے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب بسز سڑکوں پر مسافروں کو لے کر سرپٹ دوڑا کرتی تھیں، لیکن اب بسز کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کے حالات کا بے حد خراب ہیں۔
اٹی وی بھارت نے جب اس کا جائزہ لیا تو سب سے پہلے ملاقات ہوئی اس شخص سے جس کے اشاروں پر بس چلتی تھی اور بسز کی کمائی سے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے سارا سامان اکٹھا کرلیا تھا، لیکن اس سے پہلے لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا، اور پھر کیا ہوا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لاک ڈاؤن میں جو کچھ جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی، جمع رقم ختم ہونے کے بعد مجبور ہو کر آخر شادی کے لیے بنائے گئے بیٹی کے زیورات کو بیچنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا-
انہوں نے کہا کہ یہ بے چارگی کی کہانی محض ایک جگدیش مینا کی نہیں، بلکہ ایسے کئی ڈرائیور اور کنڈکٹر اس لاک ڈاؤن کی مار سے نہیں بچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب انہوں نے خودکشی کرنے کی نہ سوچی ہو، کیونکہ پورے لاک ڈاؤن میں بسز کے مالک نے نہ تو ان کی کیفیت جاننے کی کوشش کی، نہ ہی ان کی کوئی مدد کی اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی راحت کا اعلان کیا گیا۔
حالات پریشان ہو کر ان ڈرائیور اور کنڈیکٹر بے میعاد ہڑتال شروع کردی، اس کے باوجود بھی سرکار کے کسی ذمہ دار نے یا کسی سماجی کارکن نے ان کا حال نہیں پوچھا-
انہوں نے کہا کہ مدھیہ پردیش کی حکومت ان ڈرائیور اور کنڈکٹر کی پریشانی جاننے کے بجائے کابینہ کی توسیع اور ریاست کے محکموں کو بانٹنے میں مصروف ہے، انہیں اب سیاست کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔