منظر بھوپالی نے کہا ہم سب نے رمضان میں رب کو خوش کرنے کے لیے جم کرعبادت کی۔ اپنے ملک کی ترقی کے لئے دعائیں کیں۔ اور آج جو ماحول چل رہا ہے جس کے مدنظر بڑی تعداد میں مزدور اپنے گھر وں کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی نظم میں ایسے مناظر کی دلفریب ترجمانی کی ہے ۔
عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے
شہد خوشیوں کا سویوں میں ملائیں کیسے
درد بکھرا ہوا سڑکوں پہ نظر آتا ہے
بھوک سے پیاس سے انسان مرا جاتا ہے
پاؤں میں چھالے ہیں آنکھوں سے لہو رِستا ہے
جو بھی منظر ہمیں دِکھتا ہے وہ تڑپاتا ہے
ہائے مزدورکا یہ درد بٹائیں کیسے
عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے!
روز ہوتا ہے کروڑوں کا یہاں پر اعلان
ایک چہرے پر دکھائی نہیں دیتی مسکان
کر رہے ہیں وہ کورونا کا بھی اس طرح علاج
جیسے کرتی ہے غریبی پہ امیری احسان
زخم جو دل پر لگے ہیں وہ دکھائیں کیسے
عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے !
اس وبا میں بھی یہاں دھرم کا تڑکا مارا
اتحاد اپنا ہوا جاتا ہے پارہ پارہ
ایسے ماحول میں کیا پہنے کوئی اُجلا لباس
تر ہے اس وقت تک تو اشکوں سے زمانہ سارا
رُت ہے زخموں کی تو ہم پھول کھلائیں کیسے
عید آئی ہے مگر عید منائیں کیسے!
شہد خوشیوں کا سیویوں میں ملائیں کیسے؟