بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں وقف بورڈ موجود ہے, جس کا کام وقف کی جائیدادوں کا تحفظ کرنا ہے اور ان کی نگرانی کرنا، وہیں وقف بورڈ کے ماتحت آنے والا ایک ادارہ اور ہے جس سے اوقاف عامہ کہا جاتا ہے۔ اور اس ادارے میں بھی کئی قبرستان، مکانات اور دکانیں ہیں جن کی نگرانی اور کرائے کی ذمہ داری اس ادارے پر ہے۔ لیکن معلومات کے مطابق اوقاف عامہ کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے دائرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ جسے کے خلاف ریاست کی تنظیموں نے اواز بلند کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
آل انڈیا قلمکار پریشد کے صدر علی عباس امید نے اس تعلق سے بتایا کہ اس طرح سے اوقاف عامہ کو آر پی آئی سے خارج کر دینے سے بہت بدعنوانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اوقاف عامہ میں ہزاروں کروڑ کی جائیدادیں ہیں۔ زرعی، عارضی اور کرایہ داری یہاں سے کی جاتی ہے۔ ادارے کی لاکھوں روپے کی آمدنی ہے، اس کا آڈٹ بھی ہوتا ہے۔ اور یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں، ان کی پوسٹیں اسی حساب سے ہیں۔ تنخواہ دوسری کارپوریشن بورڈ کے برابر ہے، اس کے ساتھ کلیکٹر ریٹ کے مطابق درجہ چہارم کے ملازمین کو تنخواہ بھی دی جاتی ہے، انہیں سرکاری ملازمین جیسی سہولیات ملتی ہیں، چھٹیاں اور دفتری کام سرکاری دفاتر کی طرح چلتا ہے۔
لیکن سابق چیف انفارمیشن کمشنر کے ایک حکم نے یہاں کے بڑے کرپشن پر پردہ ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے سچ سامنے نہیں آرہا، اس لیے سابق انفارمیشن کمشنر کے ڈی خان کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے یہاں معلومات RTI کا حق نافذ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اوقاف عامہ میں واقف کی منشا کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ جس نے بھی یہ جائیداد خدا کی راہ میں وقف کے طور پر دی تھی۔ اس لیے ہر شخص کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وقف کی گئی جائیداد کا صحیح استعمال ہو رہا ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ چیف انفارمیشن کمشنر کے ڈی خان نے 15 نومبر 2011 کو مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے افسروں اور ملازمین کی تجویز پر ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اوقاف عامہ کو مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے تحت ہونا چاہیے لیکن اسے بوٹ سے گرانٹ نہیں ملتی، اس لیے یہ ادارہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حق کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔