بھوپال: نوابی دور میں ماہ رمضان المبارک میں ریاست بھوپال کا الگ ہی نظارہ ہوا کرتا تھا۔ شب و روز کا الگ الگ معمول تھا،دن کے وقت بازار بند رہتے تو سرکاری دفاتر میں دو گھنٹے پہلے ملازمین کو چھٹی دی جاتی تھی۔ مساجد میں عبادات کا سلسلہ دیر رات تک جاری رہتا۔شب بیداری جیسا ماحول ہوا کرتا تھا۔ لوگوں میں آپسی بھائی چارہ کا ماحول تھا۔ روزہ داروں کو سحری اور افطار کے اوقاتکو بتانے کے لئے توپ سے گولا چھوڑ ا جاتا تھا۔ یہ توپ فتح گڑھ قلعہ کے برج پر رکھی جاتی تھی، اس توپ کا نام ذوالفقار تھا۔ یہ توپ 9 فٹ لمبی تھی۔ جس میں 30 -30 کلو کے گولوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دور میں ٹریفک کا شور نہ کے برابر تھا، اس وجہ سے توپ کے گولوں کی گونج شہر کے ساتھ ساتھ آس پاس کے گاؤں تک سنا جا سکتا تھا۔
وہیں بھوپال اسٹیٹ کی جانب سے بھوپال کے کھرنی والے میدان جسے اب اقبال میدان کہا جاتا ہے افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ نواب اور بیگمات کے دور میں شہر کی مساجد کو روشن رکھنے کے لئے خاص طور پر بڑے بڑے چراغدان جلائے جاتے تھے۔ اس کام کے لیے ریاست کے خزانے سے کیروسین دیا جاتا تھا۔ یہ کیروسین لائٹ نگراں اپنی سائیکل یا بیل گاڑی میں رکھ کر نکلتے، چراغ جلانے کا سلسلہ سورج ڈوبنے سے لے کر طلوع آفتاب تک چلتا رمضان کے مہینے میں دن میں کسی کے گھر چولہا نہیں جلتا تھا۔ کیونکہ اس وقت سارے گھر کچے اور کویلوں کے ہوا کرتے تھے۔ اگر کسی کے گھر سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا تو اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہونےلگتی۔ وہیں برادران وطن کی ہوٹلز میں صبح سے افطار کے وقت تک پردہ ڈال دیا جاتا تھا۔
مزید پڑھیں:Sheermal and Feni in Bhopal بھوپال میں رمضان میں شیرمال اور فینی کی مانگ
واضح رہے کہ جس طرح سے ریاست بھوپال میں نوابی دور میں بھوپال کی مساجد اور شہر کو سجایا سنوارا جاتا تھا۔ اسی طرز پر اس بار دارالحکومت بھوپال کی مساجد اور بازاروں کو سجایا گیا ہے۔ چاروں طرف روشنی ہی روشنی نظر آرہی ہے۔ بھوپال میں نوابی دور کے بعد یہ پہلا ایسا رمضان ہے جب اس طرح کی روشنی اور رونقیں چاروں طرف نظر آ رہی ہیں۔