در اصل راکھی کے تہوار کے موقع پر اندور کے گووند نگر کالی، بال گنگا علاقے میں تسلیم نام کے ایک مسلم نوجوان چوڑی فروخت کرنے پہنچے جہاں کچھ شرپسندوں نے انہیں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے سامان کو نکال کر پھنک دیا اور نام پوچھ کر ان پٹائی کی۔ اس سلسلے میں جب پٹائی کا ویڈیو وائرل ہوا تو اقلیتی طبقے کے لوگوں نے تھانہ کو گھیراؤ کیا اور ہجومی تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احتجاج کے کئی گھنٹوں بعد مقدمہ درج کیا۔ تاہم پولیس ہجومی تشدد پر سیاست اب بھی گرم ہے۔
خبروں کے مطابق پہلے ہجومی تشدد کا شکار ہوئے نوجوان پر مقدمہ درج کیا گیا پھر انہیں گرفتار کیا گیا۔ لیکن اب پولیس نے اس سلسلے میں چار مسلم نوجوان کو فساد پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے یہ نوجوان شہر میں منظم طریقے سے فساد پھیلا نے کے فراق میں تھا جسے قبل از وقت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان چار مسلم نوجوان پر الزام ہے کہ انہوں نے چوڑی والے پر سوشل میڈیا میں پوسٹ ڈالا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس ہجومی تشدد کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے افواہ پھیلانے والوں پر نظر رکھ رہی تھی اور اسی کے پیش نظر پولیس نے چار مسلم نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔'
- مزید پڑھیں: اندور میں مسلم نوجوان ہجومی تشدد کا شکار
- اندور ہجومی تشدد، متاثر کے خلاف مقدمہ
- اندور ہجومی تشدد معاملہ: پیٹنے والوں کو سرحد پر جاکر طاقت دکھانے کی نصیحت
- اندور: مسلم نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنانے پر قومی اقلیتی کمیشن نے ازخود نوٹس لیا
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اشوتوش باگری نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے ایسے گروہ کا انکشاف کیا ہے جو اندور میں فساد پھیلانے والا تھا ان کی کوشش تھی کہ یہ سلسلے وار طریقے سے اس کام کو انجام دے۔ مگر پولیس نے قبل از وقت اس گروہ کا انکشاف کرتے ہوئے چار نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ حالانکہ اب بھی تفتیش جاری ہے۔ اگر یہ لوگ گرفتار نہیں ہوتے تو کوئی بڑا فساد کا واقعہ پیش آسکتا تھا'۔