ETV Bharat / state

لداخ اور جموں و کشمیر پر چین کی دراندازی کے اثرات

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کو دو یوٹی بنانے کے اعلان اور کووڈ 19 وبا کے درمیان کس طرح چینی مداخلت نے خطے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ۔

Impact of Chinese incursion in Ladakh and Jammu and Kashmir
Impact of Chinese incursion in Ladakh and Jammu and Kashmir
author img

By

Published : Jul 23, 2020, 7:27 PM IST

Updated : Aug 5, 2020, 3:51 PM IST

اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 35 اے کو بھارتی آئین سے منسوخ کردیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اس فیصلے کے تقریباً نو ماہ ہونے پر، لداخ کی گلوان وادی میں چینی مداخلت کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ ان اطلاعات نے جہاں 1999 کی کارگل جنگ کی یاد تازہ کی وہیں اس نئی مداخلت کے اثرات نئی قائم کردہ یونین ٹریٹری لداخ اور یو ٹی جموں و کشمیر پڑنا صاف نظر آئے۔ لوگ ابھی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کے نتیجے میں عائد بندشیں اور مواصلاتی لاک ڈاؤن سے نکل ہی رہے تھے کہ ایک نئی غیر یقینی صورتحال پورے خطے پر منڈلانے لگی۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخی کے بعد، جموں و کشمیر اور لداخ کے دو یو ٹی بنانے کے اعلان، اور کووڈ وبا کے درمیان کس طرح چینی مداخلت نے خطے پر اثرات مرتب کئے ہیں انکا خاکہ ہم پیش کر رہے ہیں۔
چین اور اگست 5 کا فیصلہ

پاکستان میں چینی سفارتکار نے سفارتی حلقوں میں اس وقت ہلچل مچا دی جب انہوں نے لداخ میں بھارت - چین کشیدگی کو دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ منسلک کیا۔
وانگ شینفنگ (Wang Xianfeng) چینی سفارت خانے میں پریس آفسر ہیں۔ انہوں نے 11 جون کو اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'بھارت کی جانب سے کشمیر کے اسٹیٹس کیو (جوں کی توں حالت) کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام اور خطے میں کشیدگی کو فروغ دینے کی وجہ سے چین اور پاکستان کے لیے نئے چیلینجز کھڑے کر دیے ہیں۔ بھارتی اقدامات نے بھارت - پاکستان، بھارت - چین تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔'

ٹویٹ
ٹویٹ
اگرچہ وانگ نے اپنا ٹویٹ دو دن بعد ہٹا دیا لیکن اپریل ماہ سے بھارت اور چین، لداخ مسئلے پر جس فوجی اور سفارتی کشیدگی سے دوچار ہے، اس بیان نے چین کے ارادوں کے تئیں نئے خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ وانگ نے چینی اسکالر وانگ شیدا، جن کا تعلق چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز (China Institutes of Contemporary International Relations) سے ہے، کا لکھا ہوا مضمون بھی ٹویٹ کیا جس میں ایسی ہی باتوں کا ذکر تھا جس کا عندیہ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں بھی دیا تھا۔ اس مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ چین کے حوالے سے بھارت کے اگست 5 کے فیصلے نے نقشے پر ایک نئے خطے کی تعمیر کی ہے۔ شیدا لکھتے ہیں کہ بھارت نے چین کے زنجیانگ اور تبت کے علاقوں کو اپنے نئے قائم کردہ یوٹی لداخ کے نقشے میں شامل کیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے خطے کو اپنی یوٹی جموں و کشمیر کا حصہ، نئے نقشے میں دکھایا ہے۔
شیدا کے مطابق انہی فیصلوں نے چین کو کشمیر مسئلہ میں داخل ہونے پر مجبور کیا اور چین اور پاکستان کو جوابی کاروائی کرنی پڑی اور ڈرامائی انداز میں بھارت چین سرحدی تنازعات کو حل کرنا دشوار ہو گیا۔ شیدا کے مطابق ان تمام خدشات کا اظہار چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے گوش گزار اس وقت کر دیے تھے جب وہ سابق برس بیجنگ کے دورے پر تھے۔ بقول وانگ شیدا چینی وزیر خارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا تھا کہ بھارتی اقدامات چین کے سلامتی، مفادات کے لئے خطرہ ہے اور ان اقدامات سے سرحدوں پر امن قائم رکھنے کے معاہدات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بھارت نے اس وقت تمام اقدامات کو اپنا اندرونی مسئلہ کہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے بات چیت جاری، معاملہ حل ہوگا اس کی گارنٹی نہیں: راجناتھ سنگھ


جموں و کشمیر پر اثرات

گزشتہ ماہ کشمیر کے علاقے ہندوارہ اور سوپور میں دو مختلف معرکہ آرائی میں چھ سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد آرمی نے کہا کہ خطہ ایک بار پھر تشدد میں اضافہ دیکھے گا۔
خطے میں آرمی کے ایک اعلیٰ آفیسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر حالات ایسے ہیں کہ وہ خطے میں دراندازی کی ایک نئی لہر پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی فراق میں ہے اور اسی لئے وہ ایل او سی پر کشیدگی بنائے رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی سیکیورٹی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے جموں و کشمیر کے حالات پر بُلائی گئی تجزیاتی میٹنگ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی۔
نو مئی کو بلائی گئی ایسی ہی ایک میٹنگ میں ڈوبھال نے افواج کو موسم گرما میں کشیدگی کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا تھا۔
اگر چہ افواج اور دیگر ایجنسیاں وادی میں دراندازی کی نئی لہر سے نمٹنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں، تاہم سیکورٹی ماہرین کے مطابق گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
دفاعی ماہر جے کمار ورما کے مطابق افواج اور دیگر ایجینسیوں کو کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے لیکن جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے دراندازی، حد متارکہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی یا ہلاکتوں میں پریشان کن اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مطمئن ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہےـ انہوں نے کہا 'آپ کو بھی مطمئن رہنا چاہیے۔'
ورما کے مطابق فوج نے جو نقصان اٹھایا ہے وہ تمام آپریشن فوج کی طرف سے ہوئے ہیں نہ کہ عسکریت پسندوں کے ذریعہ۔ انہوں نے کہا کہ فوج انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہے۔
وادی میں مقیم تجزیہ کار مانتے ہیں کہ ایل اے سی پر کشیدہ حالات، عسکریت پسندی میں اضافہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں میں ناراضگی، پاکستان کی طرف سے کشمیر پر لگاتار بیان بازی اور لداخ سرحد پر کشیدگی دراصل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثییت کی منسوخی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ تمام حالات و واقعات الگ الگ نہیں ہیں۔
کشمیر میں ایک بزرگ سیاستدان نے بتایا کہ بھارت، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحلیل کرنے کے بعد چین کی جارحانہ سفارتی پوزیشن کو سمجھنے میں غلطی کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی فیصلے نے چین کو کشمیر مسئلہ کا فریق بنا دیا ہے اور اب لداخ کو چین اور کشمیر کو پاکستان ڈیل کر رہا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان اور چین کے آپس میں تعلقات نہایت مضبوط اور سٹریٹجک نوعیت کے ہیں اور دونوں ملکوں نے ٹیکٹکل آپریشنز(tactical operations) بھی شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر روز حد متارکہ پر گولہ باری ہورہی ہے؟ دونوں معاملات کو ملا کر دیکھیے، تصویر خود بہ خود صاف ہوجائے گی۔'
دفاعی ماہرین ان تمام حالات کو چین اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ آپریشن نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے طور سے بدلے حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
دفاعی ماہر ورما کے بقول: 'پاکستان کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حد متارکہ پر گولہ باری کوئی نئی بات نہیں اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ لداخ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن وہ اپنی نوعیت کا الگ مسئلہ ہے۔ لداخ میں چینی دراندازی اور وادی کے حالات کو جوڑنے کا لنک مجھے تو نظر نہیں آرہا۔ لیکن مستقبل میں کیا ہوگا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی: 'بھارت کے خلاف پڑوسی ممالک کو نئی وجہ ملی'


وادی کی سیاسی سرگرمیوں میں لیت و لعل

21 مئی کو بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکرٹری رام مادھو نے اخبار میں شائع ہوئے ایک مضمون میں لکھا کہ وقت آگیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے کیونکہ اگست 5 کے فیصلے نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
اس کے بعد ہی یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ وادی میں ایک ایڈوائزی کاونسل قائم ہوگی جس کی قیادت 'اپنی پارٹی' کے سربراہ الطاف بخاری کریں گے۔ اپنی پارٹی کا قیام دہلی کے ایجنڈے کو وادی میں آگے بڑھانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ بخاری اور ان کی 24 نفری ٹیم کے ساتھ وزیر اعظم نے اس کاونسل کے بارے میں بات بھی کی اور خبروں کے مطابق اس کاونسل کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں ہونا تھا۔ لیکن اس کے اعلان نہ ہونے کی وجوہات میں عالمی وبا کورونا وائرس مانی جاتی ہے۔
لیکن ماہرین اس کو صرف عالمی وبا کے ساتھ نہیں جوڑتے بلکہ مانتے ہیں کہ وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں۔
سینئر صحافی، بھارت بھوشن کے مطابق کاونسل کے اعلان کے پیچھے صرف وبا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وبا کے دوران مرکزی حکومت نے نئے ڈومیسائل قانون کو نوٹیفائی کیا، تو آخر اس کاونسل کے حوالے سے تعطل کو وبا کے سر ڈالنا صحیح نہیں ہے۔'
بھوشن مانتے ہیں کہ چین کا لداخ میں اقدام وجوہات میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرح چین بھی نہیں چاہتا کہ بھارت کشمیر میں کوئی ایسا قدم لے جس کے ذریعے امن و امان کا اشارہ دنیا کو جائے کیونکہ کاونسل کی وجہ سے حالات ٹھیک ہونے کا پیغام دنیا کو جاتا کہ لوگوں کی شرکت حکومت میں ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کی دلچسپی یوٹی لداخ میں ہے اور جموں و کشمیر یوٹی لداخ سے جڑا ہوا ہے۔ مودی حکومت کوئی بھی کشمیر پالیسی بناتے وقت پاکستان کو خاطر میں بھلے ہی نہ لائے لیکن چین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ چین کی دراندازی پر وہ رد عمل سامنے نہیں آرہا ہے جو ایسی ہی حرکت پر پاکستان کے لئے مرکزی سرکار کا ہوتا ہے۔
انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی 6 اگست کی تقریر کا حوالہ دیا کہ جس میں انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائی چن کو بھی بھارت کا حصہ کہا تھا۔ پھر نومبر 2019 کو یوٹی جموں و کشمیر اور یو ٹی لداخ کے نئے نقشے جاری کیے گئے جس میں ان علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔
بھوشن کے مطابق اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی لیکن بدلی ہوئی صورتحال میں ان تمام اقدامات کو بھارتی متکبرانہ رویہ کے طور دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ: حقیقی کنڑول لائن پر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ


دعوے کی جنگ


لداخ اب ایک الگ یوٹی ہے اور بقول حکومت اور سیاستدانوں کے اس عمل سے تینوں خطے، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ ترقی اور خوشحال رہیں گے اور لوگوں نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
لداخ بدھسٹ اسوسی ایشن (Ladakh Budhish Association) کے بقول اس فیصلے سے لداخی اپنے خواب پورا ہوتے دیکھیں گے۔
اسوسی ایشن کے صدر پی ٹی کنزانگ نے بتایا کہ ایک علاحدہ خطے کی مانک لداخی 1949 سے کر رہے تھے اور مرکزی حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس مطالبے کے لئے، کنزنگ کے بقول، لداخیوں نے کئی بار احتجاج بھی کئے ہیں۔
لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے چیئرمین گیانگ وانگیال کے بقول علیحدہ خطے کے اعلان سے لداخ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مودی اور امت شاہ نے وہ کر دکھایا جو آج تک کسی حکومت نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا سابقہ حکومتوں نے ان کے اس مطالبے پر صرف سیاست ہی چمکائی ہے۔
انہوں نے کہا 'ہم ایک آزاد لداخ کا مطالبہ کر رہے تھے اور آج ہم نے لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کر لیا ہے۔ ہمارے اجداد نے اس کے لئے جدو جہد کی ہے۔'
وانگیال کے مطابق علیحدہ خطے کا مطالبہ اس لئے کیا گیا کیونکہ تقریباً تمام مرکزی اسکیمیں کشمیر کے حصے میں جاتی تھیں جبکہ خطے کا 70 فیصد رقبہ لداخ ہے۔
ہر اسکیم میں کشمیر کو ترجیح ملتی اور لداخ کے حصے کچھ نہ آتا۔ وانگیال نے کہا کہ مرکزی سرکار کے 80 ہزار کروڑ کے ترقیاتی پیکیج 2014 میں بھی کشمیر نے ہی حصہ پایا اور لداخ کے نصیب کچھ نہ آیا۔
مقامی لداخی اس دعوے کو لیکن نہیں مانتے وہ یہ کہتے ہیں کہ مقامی سیاستدان موقع پرست ہیں۔
ایک مقامی باشندہ سرور یعقوب نے بتایا کہ 'عوام کنفیوژن (تذبذب) کا شکار ہیں اور اس فیصلے سے تمام خوش نہیں ہیں ـ'
سرور نے بتایا کہ نئے فیصلے کو ایک سال ہونے کو ہے اور ابھی تک کسی کو نئے انتظامی اصول کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ اگرچہ پہلے حکومت میں ہر حکمنامے پر نوٹفیکشن جاری کیا جاتا تھا لیکن نئے نظام میں آفسران تک پریشان اور حیران نظر آتے ہیں۔
ایک اور باشندے آنگمو دیسکت نے بتایا کہ وہ مرکزی اور ریاستی سول سروس کی تیاری کر رہے تھے اور پھر ریاست کی سیاسی حیثیت تبدیل کر دی گئی اور اب کچھ نہیں معلوم کہ ریاستی کیڈر کا کیا انتظام ہے۔ ہر طرف کنفیوژن ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ریاستی کوٹہ ختم کیا جائے گا اور کچھ کہتے ہیں کہ کوٹہ برقرار رہے گا۔
ٓآنگمو نے کہا کہ حکمران خود نہیں جانتے کہ کیا ہوا، کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ لوگوں کے بارے میں سیاستدان کم ہی سوچتے ہیں، وہ صرف حکومت موافق باتیں کرنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لداخ کے کشمیر سے الگ ہونے سے کیا ہوگا، ہمارا مسئلہ شرح خواندگی میں کمی، طبی سہولیات کی غیر فراہمی، ترقی کے کاموں کا غائب ہونا ہے۔
آنگمو کے مطابق لداخ کا مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ کرپشن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت چین تصادم میں ہلاک ہونے والوں کی تفصیلات


ڈومیسائل قانون

مرکزی حکومت کے نئے ڈومیسائل قانون کے اجرا کرنے کے بعد لداخ انتظامیہ کی خاموشی پر مقامی باشندے انتظامیہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ جب انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو مختلف افسران نے کہا کہ ابھی صحیح وقت نہیں ہے۔
ایک اعلیٰ افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ چونکہ لداخ ایک نئی قائم کردہ یوٹی ہے، اس لئے چیزوں کو پٹری پر آنے میں وقت لگے گا جیسے کہ پہلے کشمیر پولیس تھی اب لداخ پولیس ہے، پہلے گاڑیوں کے نمبر جے کے ہوا کرتے تھے اب ایل اے ہوں گے۔ اسی طرح مختلف محاذ پر کام جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں مرکزی ہدایات کو عمل میں لانے میں سہولت ہے کیونکہ ان کے پاس فاسٹ ٹریک بنیادوں پر کام کرنے کے ادارے اور وسائل موجود ہیں جو ابھی لداخ کے پاس نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا 'آہستہ آہستہ ہمارے پاس بھی یہ وسائل آجائیں گے اور پھر ہر چیز بہتر طریقے پر انجام پائے گی۔'
ان کے بقول ابھی ڈومیسائل قانون پر بات کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔
جب ان سے سول سروس کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ لداخ یوٹی ہے اس لئے تمام مرکزی قوانیں یہاں نافذ العمل ہیں لیکن اس مسئلہ پر کوئی الگ نوٹیفکیشن نہیں جاری ہوئے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس معاملے پر صبر سے کام لیا جائے۔
مقامی سیاست دان اور مختلف انجمنوں کے ذمہ داران نے بھی اس قانون پر بات کرنے سے دامن جھاڑا اور کہا کہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ مقامی باشندگان اس مسئلہ پر شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔
سرور حسین نے بتایا کہ حکومت کی ویب سائٹ پر ڈومیسائل قانون کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے اور سیاستدان اس مسئلے پر بات کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ دوسری طرف نوجوں دیسکت کا ماننا ہے کہ یو ٹی بننے کے بعد سے لداخ آسیبی سایوں تلے ہے۔
دیسکت کے بقول لوگوں کی فریاد رسی نہیں ہو رہی۔ سوالات کے جوابات نہیں مل رہے اور کسی کے پاس راہنمائی کے ہمت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈومیسائل قانون اور ڈی لمیٹیشن دور رس فیصلے ہیں لیکن لداخ میں کوئی اس پر عوام کی رہنمائی تو کیا لب کشائی کے لئے تیار نہیں جبکہ کشمیر میں لوگوں نے ڈومیسائل سرٹیفکٹز کے لئے درخواستیں جمع کردی ہیں جس کی وجہ سے لداخ میں اضطرابی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف نا اہل انتظامیہ ہے اور دوسری طرف چین کی جانب سے جنگ کے کالے بادل اور ان تمام کے بیچ لداخ کے عوام تذبذب کا شکار ہیں۔

لداخ: چینی فوجی ابھی تک پیچھے نہیں ہٹے


چین ۔ لداخ تنازعہ

چینی اور بھارتی فوج کا اس بات پر متفق ہوجانا کہ سرحد پر کشیدکی کم کرنے کے لئے افواج کا ڈی انگیج ہونا ضروری ہے، نے عوام کو راحت پہنچائی ہے۔
چشل کے کاؤنسلر کونچوک اسٹانزن نے بتایا کہ دونوں افواج کا امن کی طرف قدم بڑھانا خوش آئند ہے جس سے عوام کو راحت پہنچے گی۔

اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ 35 اے کو بھارتی آئین سے منسوخ کردیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اس فیصلے کے تقریباً نو ماہ ہونے پر، لداخ کی گلوان وادی میں چینی مداخلت کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ ان اطلاعات نے جہاں 1999 کی کارگل جنگ کی یاد تازہ کی وہیں اس نئی مداخلت کے اثرات نئی قائم کردہ یونین ٹریٹری لداخ اور یو ٹی جموں و کشمیر پڑنا صاف نظر آئے۔ لوگ ابھی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کے نتیجے میں عائد بندشیں اور مواصلاتی لاک ڈاؤن سے نکل ہی رہے تھے کہ ایک نئی غیر یقینی صورتحال پورے خطے پر منڈلانے لگی۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخی کے بعد، جموں و کشمیر اور لداخ کے دو یو ٹی بنانے کے اعلان، اور کووڈ وبا کے درمیان کس طرح چینی مداخلت نے خطے پر اثرات مرتب کئے ہیں انکا خاکہ ہم پیش کر رہے ہیں۔
چین اور اگست 5 کا فیصلہ

پاکستان میں چینی سفارتکار نے سفارتی حلقوں میں اس وقت ہلچل مچا دی جب انہوں نے لداخ میں بھارت - چین کشیدگی کو دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ منسلک کیا۔
وانگ شینفنگ (Wang Xianfeng) چینی سفارت خانے میں پریس آفسر ہیں۔ انہوں نے 11 جون کو اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'بھارت کی جانب سے کشمیر کے اسٹیٹس کیو (جوں کی توں حالت) کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام اور خطے میں کشیدگی کو فروغ دینے کی وجہ سے چین اور پاکستان کے لیے نئے چیلینجز کھڑے کر دیے ہیں۔ بھارتی اقدامات نے بھارت - پاکستان، بھارت - چین تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔'

ٹویٹ
ٹویٹ
اگرچہ وانگ نے اپنا ٹویٹ دو دن بعد ہٹا دیا لیکن اپریل ماہ سے بھارت اور چین، لداخ مسئلے پر جس فوجی اور سفارتی کشیدگی سے دوچار ہے، اس بیان نے چین کے ارادوں کے تئیں نئے خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ وانگ نے چینی اسکالر وانگ شیدا، جن کا تعلق چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز (China Institutes of Contemporary International Relations) سے ہے، کا لکھا ہوا مضمون بھی ٹویٹ کیا جس میں ایسی ہی باتوں کا ذکر تھا جس کا عندیہ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں بھی دیا تھا۔ اس مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ چین کے حوالے سے بھارت کے اگست 5 کے فیصلے نے نقشے پر ایک نئے خطے کی تعمیر کی ہے۔ شیدا لکھتے ہیں کہ بھارت نے چین کے زنجیانگ اور تبت کے علاقوں کو اپنے نئے قائم کردہ یوٹی لداخ کے نقشے میں شامل کیا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے خطے کو اپنی یوٹی جموں و کشمیر کا حصہ، نئے نقشے میں دکھایا ہے۔
شیدا کے مطابق انہی فیصلوں نے چین کو کشمیر مسئلہ میں داخل ہونے پر مجبور کیا اور چین اور پاکستان کو جوابی کاروائی کرنی پڑی اور ڈرامائی انداز میں بھارت چین سرحدی تنازعات کو حل کرنا دشوار ہو گیا۔ شیدا کے مطابق ان تمام خدشات کا اظہار چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے گوش گزار اس وقت کر دیے تھے جب وہ سابق برس بیجنگ کے دورے پر تھے۔ بقول وانگ شیدا چینی وزیر خارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا تھا کہ بھارتی اقدامات چین کے سلامتی، مفادات کے لئے خطرہ ہے اور ان اقدامات سے سرحدوں پر امن قائم رکھنے کے معاہدات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بھارت نے اس وقت تمام اقدامات کو اپنا اندرونی مسئلہ کہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے بات چیت جاری، معاملہ حل ہوگا اس کی گارنٹی نہیں: راجناتھ سنگھ


جموں و کشمیر پر اثرات

گزشتہ ماہ کشمیر کے علاقے ہندوارہ اور سوپور میں دو مختلف معرکہ آرائی میں چھ سی آر پی ایف اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد آرمی نے کہا کہ خطہ ایک بار پھر تشدد میں اضافہ دیکھے گا۔
خطے میں آرمی کے ایک اعلیٰ آفیسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر حالات ایسے ہیں کہ وہ خطے میں دراندازی کی ایک نئی لہر پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی فراق میں ہے اور اسی لئے وہ ایل او سی پر کشیدگی بنائے رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی سیکیورٹی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے جموں و کشمیر کے حالات پر بُلائی گئی تجزیاتی میٹنگ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی۔
نو مئی کو بلائی گئی ایسی ہی ایک میٹنگ میں ڈوبھال نے افواج کو موسم گرما میں کشیدگی کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا تھا۔
اگر چہ افواج اور دیگر ایجنسیاں وادی میں دراندازی کی نئی لہر سے نمٹنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں، تاہم سیکورٹی ماہرین کے مطابق گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
دفاعی ماہر جے کمار ورما کے مطابق افواج اور دیگر ایجینسیوں کو کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے لیکن جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے دراندازی، حد متارکہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی یا ہلاکتوں میں پریشان کن اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مطمئن ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہےـ انہوں نے کہا 'آپ کو بھی مطمئن رہنا چاہیے۔'
ورما کے مطابق فوج نے جو نقصان اٹھایا ہے وہ تمام آپریشن فوج کی طرف سے ہوئے ہیں نہ کہ عسکریت پسندوں کے ذریعہ۔ انہوں نے کہا کہ فوج انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہے۔
وادی میں مقیم تجزیہ کار مانتے ہیں کہ ایل اے سی پر کشیدہ حالات، عسکریت پسندی میں اضافہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں میں ناراضگی، پاکستان کی طرف سے کشمیر پر لگاتار بیان بازی اور لداخ سرحد پر کشیدگی دراصل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثییت کی منسوخی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ تمام حالات و واقعات الگ الگ نہیں ہیں۔
کشمیر میں ایک بزرگ سیاستدان نے بتایا کہ بھارت، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحلیل کرنے کے بعد چین کی جارحانہ سفارتی پوزیشن کو سمجھنے میں غلطی کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی فیصلے نے چین کو کشمیر مسئلہ کا فریق بنا دیا ہے اور اب لداخ کو چین اور کشمیر کو پاکستان ڈیل کر رہا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان اور چین کے آپس میں تعلقات نہایت مضبوط اور سٹریٹجک نوعیت کے ہیں اور دونوں ملکوں نے ٹیکٹکل آپریشنز(tactical operations) بھی شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر روز حد متارکہ پر گولہ باری ہورہی ہے؟ دونوں معاملات کو ملا کر دیکھیے، تصویر خود بہ خود صاف ہوجائے گی۔'
دفاعی ماہرین ان تمام حالات کو چین اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ آپریشن نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے طور سے بدلے حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
دفاعی ماہر ورما کے بقول: 'پاکستان کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حد متارکہ پر گولہ باری کوئی نئی بات نہیں اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ لداخ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن وہ اپنی نوعیت کا الگ مسئلہ ہے۔ لداخ میں چینی دراندازی اور وادی کے حالات کو جوڑنے کا لنک مجھے تو نظر نہیں آرہا۔ لیکن مستقبل میں کیا ہوگا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی: 'بھارت کے خلاف پڑوسی ممالک کو نئی وجہ ملی'


وادی کی سیاسی سرگرمیوں میں لیت و لعل

21 مئی کو بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکرٹری رام مادھو نے اخبار میں شائع ہوئے ایک مضمون میں لکھا کہ وقت آگیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے کیونکہ اگست 5 کے فیصلے نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
اس کے بعد ہی یہ اطلاعات گردش کرنے لگیں کہ وادی میں ایک ایڈوائزی کاونسل قائم ہوگی جس کی قیادت 'اپنی پارٹی' کے سربراہ الطاف بخاری کریں گے۔ اپنی پارٹی کا قیام دہلی کے ایجنڈے کو وادی میں آگے بڑھانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ بخاری اور ان کی 24 نفری ٹیم کے ساتھ وزیر اعظم نے اس کاونسل کے بارے میں بات بھی کی اور خبروں کے مطابق اس کاونسل کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں ہونا تھا۔ لیکن اس کے اعلان نہ ہونے کی وجوہات میں عالمی وبا کورونا وائرس مانی جاتی ہے۔
لیکن ماہرین اس کو صرف عالمی وبا کے ساتھ نہیں جوڑتے بلکہ مانتے ہیں کہ وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں۔
سینئر صحافی، بھارت بھوشن کے مطابق کاونسل کے اعلان کے پیچھے صرف وبا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'وبا کے دوران مرکزی حکومت نے نئے ڈومیسائل قانون کو نوٹیفائی کیا، تو آخر اس کاونسل کے حوالے سے تعطل کو وبا کے سر ڈالنا صحیح نہیں ہے۔'
بھوشن مانتے ہیں کہ چین کا لداخ میں اقدام وجوہات میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرح چین بھی نہیں چاہتا کہ بھارت کشمیر میں کوئی ایسا قدم لے جس کے ذریعے امن و امان کا اشارہ دنیا کو جائے کیونکہ کاونسل کی وجہ سے حالات ٹھیک ہونے کا پیغام دنیا کو جاتا کہ لوگوں کی شرکت حکومت میں ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کی دلچسپی یوٹی لداخ میں ہے اور جموں و کشمیر یوٹی لداخ سے جڑا ہوا ہے۔ مودی حکومت کوئی بھی کشمیر پالیسی بناتے وقت پاکستان کو خاطر میں بھلے ہی نہ لائے لیکن چین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ چین کی دراندازی پر وہ رد عمل سامنے نہیں آرہا ہے جو ایسی ہی حرکت پر پاکستان کے لئے مرکزی سرکار کا ہوتا ہے۔
انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی 6 اگست کی تقریر کا حوالہ دیا کہ جس میں انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائی چن کو بھی بھارت کا حصہ کہا تھا۔ پھر نومبر 2019 کو یوٹی جموں و کشمیر اور یو ٹی لداخ کے نئے نقشے جاری کیے گئے جس میں ان علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔
بھوشن کے مطابق اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی لیکن بدلی ہوئی صورتحال میں ان تمام اقدامات کو بھارتی متکبرانہ رویہ کے طور دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ: حقیقی کنڑول لائن پر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ


دعوے کی جنگ


لداخ اب ایک الگ یوٹی ہے اور بقول حکومت اور سیاستدانوں کے اس عمل سے تینوں خطے، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ ترقی اور خوشحال رہیں گے اور لوگوں نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔
لداخ بدھسٹ اسوسی ایشن (Ladakh Budhish Association) کے بقول اس فیصلے سے لداخی اپنے خواب پورا ہوتے دیکھیں گے۔
اسوسی ایشن کے صدر پی ٹی کنزانگ نے بتایا کہ ایک علاحدہ خطے کی مانک لداخی 1949 سے کر رہے تھے اور مرکزی حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس مطالبے کے لئے، کنزنگ کے بقول، لداخیوں نے کئی بار احتجاج بھی کئے ہیں۔
لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے چیئرمین گیانگ وانگیال کے بقول علیحدہ خطے کے اعلان سے لداخ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مودی اور امت شاہ نے وہ کر دکھایا جو آج تک کسی حکومت نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا سابقہ حکومتوں نے ان کے اس مطالبے پر صرف سیاست ہی چمکائی ہے۔
انہوں نے کہا 'ہم ایک آزاد لداخ کا مطالبہ کر رہے تھے اور آج ہم نے لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کر لیا ہے۔ ہمارے اجداد نے اس کے لئے جدو جہد کی ہے۔'
وانگیال کے مطابق علیحدہ خطے کا مطالبہ اس لئے کیا گیا کیونکہ تقریباً تمام مرکزی اسکیمیں کشمیر کے حصے میں جاتی تھیں جبکہ خطے کا 70 فیصد رقبہ لداخ ہے۔
ہر اسکیم میں کشمیر کو ترجیح ملتی اور لداخ کے حصے کچھ نہ آتا۔ وانگیال نے کہا کہ مرکزی سرکار کے 80 ہزار کروڑ کے ترقیاتی پیکیج 2014 میں بھی کشمیر نے ہی حصہ پایا اور لداخ کے نصیب کچھ نہ آیا۔
مقامی لداخی اس دعوے کو لیکن نہیں مانتے وہ یہ کہتے ہیں کہ مقامی سیاستدان موقع پرست ہیں۔
ایک مقامی باشندہ سرور یعقوب نے بتایا کہ 'عوام کنفیوژن (تذبذب) کا شکار ہیں اور اس فیصلے سے تمام خوش نہیں ہیں ـ'
سرور نے بتایا کہ نئے فیصلے کو ایک سال ہونے کو ہے اور ابھی تک کسی کو نئے انتظامی اصول کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ اگرچہ پہلے حکومت میں ہر حکمنامے پر نوٹفیکشن جاری کیا جاتا تھا لیکن نئے نظام میں آفسران تک پریشان اور حیران نظر آتے ہیں۔
ایک اور باشندے آنگمو دیسکت نے بتایا کہ وہ مرکزی اور ریاستی سول سروس کی تیاری کر رہے تھے اور پھر ریاست کی سیاسی حیثیت تبدیل کر دی گئی اور اب کچھ نہیں معلوم کہ ریاستی کیڈر کا کیا انتظام ہے۔ ہر طرف کنفیوژن ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ریاستی کوٹہ ختم کیا جائے گا اور کچھ کہتے ہیں کہ کوٹہ برقرار رہے گا۔
ٓآنگمو نے کہا کہ حکمران خود نہیں جانتے کہ کیا ہوا، کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ لوگوں کے بارے میں سیاستدان کم ہی سوچتے ہیں، وہ صرف حکومت موافق باتیں کرنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لداخ کے کشمیر سے الگ ہونے سے کیا ہوگا، ہمارا مسئلہ شرح خواندگی میں کمی، طبی سہولیات کی غیر فراہمی، ترقی کے کاموں کا غائب ہونا ہے۔
آنگمو کے مطابق لداخ کا مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ کرپشن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت چین تصادم میں ہلاک ہونے والوں کی تفصیلات


ڈومیسائل قانون

مرکزی حکومت کے نئے ڈومیسائل قانون کے اجرا کرنے کے بعد لداخ انتظامیہ کی خاموشی پر مقامی باشندے انتظامیہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ جب انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی تو مختلف افسران نے کہا کہ ابھی صحیح وقت نہیں ہے۔
ایک اعلیٰ افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ چونکہ لداخ ایک نئی قائم کردہ یوٹی ہے، اس لئے چیزوں کو پٹری پر آنے میں وقت لگے گا جیسے کہ پہلے کشمیر پولیس تھی اب لداخ پولیس ہے، پہلے گاڑیوں کے نمبر جے کے ہوا کرتے تھے اب ایل اے ہوں گے۔ اسی طرح مختلف محاذ پر کام جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں مرکزی ہدایات کو عمل میں لانے میں سہولت ہے کیونکہ ان کے پاس فاسٹ ٹریک بنیادوں پر کام کرنے کے ادارے اور وسائل موجود ہیں جو ابھی لداخ کے پاس نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا 'آہستہ آہستہ ہمارے پاس بھی یہ وسائل آجائیں گے اور پھر ہر چیز بہتر طریقے پر انجام پائے گی۔'
ان کے بقول ابھی ڈومیسائل قانون پر بات کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔
جب ان سے سول سروس کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ لداخ یوٹی ہے اس لئے تمام مرکزی قوانیں یہاں نافذ العمل ہیں لیکن اس مسئلہ پر کوئی الگ نوٹیفکیشن نہیں جاری ہوئے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس معاملے پر صبر سے کام لیا جائے۔
مقامی سیاست دان اور مختلف انجمنوں کے ذمہ داران نے بھی اس قانون پر بات کرنے سے دامن جھاڑا اور کہا کہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ مقامی باشندگان اس مسئلہ پر شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔
سرور حسین نے بتایا کہ حکومت کی ویب سائٹ پر ڈومیسائل قانون کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے اور سیاستدان اس مسئلے پر بات کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ دوسری طرف نوجوں دیسکت کا ماننا ہے کہ یو ٹی بننے کے بعد سے لداخ آسیبی سایوں تلے ہے۔
دیسکت کے بقول لوگوں کی فریاد رسی نہیں ہو رہی۔ سوالات کے جوابات نہیں مل رہے اور کسی کے پاس راہنمائی کے ہمت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈومیسائل قانون اور ڈی لمیٹیشن دور رس فیصلے ہیں لیکن لداخ میں کوئی اس پر عوام کی رہنمائی تو کیا لب کشائی کے لئے تیار نہیں جبکہ کشمیر میں لوگوں نے ڈومیسائل سرٹیفکٹز کے لئے درخواستیں جمع کردی ہیں جس کی وجہ سے لداخ میں اضطرابی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف نا اہل انتظامیہ ہے اور دوسری طرف چین کی جانب سے جنگ کے کالے بادل اور ان تمام کے بیچ لداخ کے عوام تذبذب کا شکار ہیں۔

لداخ: چینی فوجی ابھی تک پیچھے نہیں ہٹے


چین ۔ لداخ تنازعہ

چینی اور بھارتی فوج کا اس بات پر متفق ہوجانا کہ سرحد پر کشیدکی کم کرنے کے لئے افواج کا ڈی انگیج ہونا ضروری ہے، نے عوام کو راحت پہنچائی ہے۔
چشل کے کاؤنسلر کونچوک اسٹانزن نے بتایا کہ دونوں افواج کا امن کی طرف قدم بڑھانا خوش آئند ہے جس سے عوام کو راحت پہنچے گی۔

Last Updated : Aug 5, 2020, 3:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.