بھارت چین کے درمیان حقیقی لائن آف کنٹرول پر بڑھتی کشیدگی کے درمیان اگر کوئی شخص گمشدہ ہو جاتا ہے تو اس کا پتا لگانا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں لداخ کی رہنے والی ایک خاتون لاپتا ہوگئیں اور بعد میں ان کی لاش بلتستان سے برآمد کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں خاتون کی لاش کو واپس لداخ پہنچانا ناممکن سا لگ رہا تھا تاہم سرحد کے دونوں طرف سے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر چلائی گئی مہم سے لاش کو آسانی سے واپس بھارت لانے میں کامیابی مل گئی۔
گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔
پھر گزشتہ منگل کے روز بلتستان کے گاؤں چھہوربٹ کے باشندگان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک خاتون کی لاش دریائے شیوک سے برآمد کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے مقامی انتظامیہ کو اس حوالے سے اطلاع دی اور آخری رسومات ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔
عام طور پر دونوں ممالک کے درمیان لاشوں کے منتقل کرنے کے طریقے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں جب دونوں ممالک بھارت اور پاکستان ہوں۔ بلتستان کے ایک مقامی کالم نگار شیر علی انجم نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "اس خاتون کی لاش کو واپس لداخ منتقل کرنے کے لئے آسان طریقہ اپنانا چاہیے۔ پانچ ہزار کلومیٹر واگہہ ہوتے ہوئے لاش کو بھارت لے جانے سے بہتر ہوگا کہ اگر سرحد کے قریب ہی راستہ نکالا جائے۔"
لداخی خاتون کی جسد خاکی چند گھنٹوں میں بلتستان سے کیسے منتقل ہوئی؟
گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔
بھارت چین کے درمیان حقیقی لائن آف کنٹرول پر بڑھتی کشیدگی کے درمیان اگر کوئی شخص گمشدہ ہو جاتا ہے تو اس کا پتا لگانا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں لداخ کی رہنے والی ایک خاتون لاپتا ہوگئیں اور بعد میں ان کی لاش بلتستان سے برآمد کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں خاتون کی لاش کو واپس لداخ پہنچانا ناممکن سا لگ رہا تھا تاہم سرحد کے دونوں طرف سے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر چلائی گئی مہم سے لاش کو آسانی سے واپس بھارت لانے میں کامیابی مل گئی۔
گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔
پھر گزشتہ منگل کے روز بلتستان کے گاؤں چھہوربٹ کے باشندگان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک خاتون کی لاش دریائے شیوک سے برآمد کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے مقامی انتظامیہ کو اس حوالے سے اطلاع دی اور آخری رسومات ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔
عام طور پر دونوں ممالک کے درمیان لاشوں کے منتقل کرنے کے طریقے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں جب دونوں ممالک بھارت اور پاکستان ہوں۔ بلتستان کے ایک مقامی کالم نگار شیر علی انجم نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "اس خاتون کی لاش کو واپس لداخ منتقل کرنے کے لئے آسان طریقہ اپنانا چاہیے۔ پانچ ہزار کلومیٹر واگہہ ہوتے ہوئے لاش کو بھارت لے جانے سے بہتر ہوگا کہ اگر سرحد کے قریب ہی راستہ نکالا جائے۔"