ETV Bharat / state

لداخی خاتون کی جسد خاکی چند گھنٹوں میں بلتستان سے کیسے منتقل ہوئی؟

گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔

لداخی خاتون کی جسد خاکی چند گھنٹوں میں بلتستان سے کیسے منتقل ہوئے
لداخی خاتون کی جسد خاکی چند گھنٹوں میں بلتستان سے کیسے منتقل ہوئے
author img

By

Published : Sep 10, 2020, 1:49 PM IST

بھارت چین کے درمیان حقیقی لائن آف کنٹرول پر بڑھتی کشیدگی کے درمیان اگر کوئی شخص گمشدہ ہو جاتا ہے تو اس کا پتا لگانا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں لداخ کی رہنے والی ایک خاتون لاپتا ہوگئیں اور بعد میں ان کی لاش بلتستان سے برآمد کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں خاتون کی لاش کو واپس لداخ پہنچانا ناممکن سا لگ رہا تھا تاہم سرحد کے دونوں طرف سے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر چلائی گئی مہم سے لاش کو آسانی سے واپس بھارت لانے میں کامیابی مل گئی۔

گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔

پھر گزشتہ منگل کے روز بلتستان کے گاؤں چھہوربٹ کے باشندگان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک خاتون کی لاش دریائے شیوک سے برآمد کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے مقامی انتظامیہ کو اس حوالے سے اطلاع دی اور آخری رسومات ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔

عام طور پر دونوں ممالک کے درمیان لاشوں کے منتقل کرنے کے طریقے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں جب دونوں ممالک بھارت اور پاکستان ہوں۔ بلتستان کے ایک مقامی کالم نگار شیر علی انجم نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "اس خاتون کی لاش کو واپس لداخ منتقل کرنے کے لئے آسان طریقہ اپنانا چاہیے۔ پانچ ہزار کلومیٹر واگہہ ہوتے ہوئے لاش کو بھارت لے جانے سے بہتر ہوگا کہ اگر سرحد کے قریب ہی راستہ نکالا جائے۔"

سجاد حسین کرگلی
سجاد حسین کرگلی
جس کے بعد راواں ماہ کی آٹھ تاریخ کو لداخ کے مقامی صحافی اور سیاست داں سجاد کرگلی نے مرکز کے زیر انتظام لداخ کی انتظامیہ کو اس تعلق سے جلد کاروائی کرنے کو کہا۔ کرگلی کے ٹویٹ سے اتفاق رکھتے ہوئے سرینگر سے پی ڈی پی کے رہنما وحیدالرحمان نے بھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر خارجہ امور سبرامنیم جے شنکر کو اس حوالے سے کاروائی کرنے کی گزارش کی۔
وحید الرحمان
وحید الرحمان
رواں ماہ کی 9 تاریخ کو کیے گئے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ "انسانیت کی خاطر بھارت اور پاکستان کی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس خاتون کے رشتے داروں کی مدد کریں۔ لاش کو واپس لایا جائے تاکہ لاحقین آخری رسومات ادا کر سکیں۔
"وہیں پاکستان کی صحافی اور کالم نگار مہر ترار نے بھی ان تفصیلات کو ٹویٹ کرتے ہوئے بلتستان کی انتظامیہ کو آگاہ کیا۔ جس کے بعد گلگت بلتستان کے ہوم سیکرٹری محمد علی رندھاوا نے ٹوئٹر پر واضح کردیا کہ "گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تیس سالہ خیر النساء کی لاش برآمد کی گئی ہے۔ ملٹری انتظامیہ نے بھارت کے افسران سے رابطہ کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کی مظفر آباد کے راستے سے لاش کو ستمبر 10 کو کشمیر بھیجا جائے گا۔"
مہر ترار
مہر ترار
محمد علی رندھاوا
محمد علی رندھاوا
جہاں دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر نہیں ہیں وہیں ٹویٹر کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکلنا خوش آئند بات تھی۔ جہاں ٹویٹر پر دونوں ممالک کی جانب سے خاتون کی لاش کو واپس لداخ لانے پر ستائش کی جا رہی ہے وہیں ابھی یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ لاش کو سرینگر لایا جائے گا یا سیدھے لداخ پہنچایا جائے۔"

بھارت چین کے درمیان حقیقی لائن آف کنٹرول پر بڑھتی کشیدگی کے درمیان اگر کوئی شخص گمشدہ ہو جاتا ہے تو اس کا پتا لگانا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں لداخ کی رہنے والی ایک خاتون لاپتا ہوگئیں اور بعد میں ان کی لاش بلتستان سے برآمد کی گئی۔ موجودہ صورتحال میں خاتون کی لاش کو واپس لداخ پہنچانا ناممکن سا لگ رہا تھا تاہم سرحد کے دونوں طرف سے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر چلائی گئی مہم سے لاش کو آسانی سے واپس بھارت لانے میں کامیابی مل گئی۔

گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تین بچوں کی ماں خیر النساء جو بُگڈنگ لیہہ کی رہنے والی تھیں، لاپتہ ہوگئیں۔ رشتے داروں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور سرحد کے اُس پار ان کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کیا تاہم خیر النساء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔

پھر گزشتہ منگل کے روز بلتستان کے گاؤں چھہوربٹ کے باشندگان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک خاتون کی لاش دریائے شیوک سے برآمد کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے مقامی انتظامیہ کو اس حوالے سے اطلاع دی اور آخری رسومات ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔

عام طور پر دونوں ممالک کے درمیان لاشوں کے منتقل کرنے کے طریقے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں جب دونوں ممالک بھارت اور پاکستان ہوں۔ بلتستان کے ایک مقامی کالم نگار شیر علی انجم نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "اس خاتون کی لاش کو واپس لداخ منتقل کرنے کے لئے آسان طریقہ اپنانا چاہیے۔ پانچ ہزار کلومیٹر واگہہ ہوتے ہوئے لاش کو بھارت لے جانے سے بہتر ہوگا کہ اگر سرحد کے قریب ہی راستہ نکالا جائے۔"

سجاد حسین کرگلی
سجاد حسین کرگلی
جس کے بعد راواں ماہ کی آٹھ تاریخ کو لداخ کے مقامی صحافی اور سیاست داں سجاد کرگلی نے مرکز کے زیر انتظام لداخ کی انتظامیہ کو اس تعلق سے جلد کاروائی کرنے کو کہا۔ کرگلی کے ٹویٹ سے اتفاق رکھتے ہوئے سرینگر سے پی ڈی پی کے رہنما وحیدالرحمان نے بھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر خارجہ امور سبرامنیم جے شنکر کو اس حوالے سے کاروائی کرنے کی گزارش کی۔
وحید الرحمان
وحید الرحمان
رواں ماہ کی 9 تاریخ کو کیے گئے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ "انسانیت کی خاطر بھارت اور پاکستان کی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس خاتون کے رشتے داروں کی مدد کریں۔ لاش کو واپس لایا جائے تاکہ لاحقین آخری رسومات ادا کر سکیں۔
"وہیں پاکستان کی صحافی اور کالم نگار مہر ترار نے بھی ان تفصیلات کو ٹویٹ کرتے ہوئے بلتستان کی انتظامیہ کو آگاہ کیا۔ جس کے بعد گلگت بلتستان کے ہوم سیکرٹری محمد علی رندھاوا نے ٹوئٹر پر واضح کردیا کہ "گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو تیس سالہ خیر النساء کی لاش برآمد کی گئی ہے۔ ملٹری انتظامیہ نے بھارت کے افسران سے رابطہ کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کی مظفر آباد کے راستے سے لاش کو ستمبر 10 کو کشمیر بھیجا جائے گا۔"
مہر ترار
مہر ترار
محمد علی رندھاوا
محمد علی رندھاوا
جہاں دونوں ممالک کے درمیان حالات معمول پر نہیں ہیں وہیں ٹویٹر کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکلنا خوش آئند بات تھی۔ جہاں ٹویٹر پر دونوں ممالک کی جانب سے خاتون کی لاش کو واپس لداخ لانے پر ستائش کی جا رہی ہے وہیں ابھی یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ لاش کو سرینگر لایا جائے گا یا سیدھے لداخ پہنچایا جائے۔"
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.