حال ہی میں سرکار نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی امن و سلامتی اور مخالف سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) تشکیل دی تھی۔ سرکار کے اس قدم کو سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سرکاری اسکول کے استاد ادریس جان جو گورنمنٹ مڈل اسکول کرالپورہ کپواڑہ میں تعینات تھے، ان کے علاوہ ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے نائب تحصیلدار نذیر احمد وانی اور کولگام ضلع سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر کو بھی نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پہلے برطرف ہونے والے سرکاری استاد ادریس جان کو سنہ 2016 میں عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی لہر کے دوران پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جسے چند روز قبل نوکری سے برخاست کیا گیا۔
جنوبی ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایگزیکٹو مجسٹریٹ (فرسٹ کلاس) نذیر احمد وانی ان تین ملازمین میں شامل ہیں جنہیں بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس مئی کے مہینے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ ایگزیکیٹو مجسٹریٹ کے دکان میں ایک خفیہ ٹھکانے کا پتہ چلا ہے جو شدت پسندانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
فوج کی 44 راشٹریہ رائفلز اور پولیس نے مشترکہ طور پلوامہ کے بیلو علاقہ میں کاروائی کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ خفیہ ٹھکانے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔ وانی پر عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کرنے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔ جس کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔ جو اب بھی نظربند ہیں۔ برطرف کئے گئے ملازمیں میں ضلع کولگام کے چڈر علاقہ کے رہنے والے شعبہ جغرافیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری نائک بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر باری کو' غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں متعلقہ دفعات کے تحت کولگام ڈگری کالج میں پڑھاتے ہوئے حراست میں لیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد انہیں جموں کے ادھم پور کے ایک کالج میں ٹرانسفر کردیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالباری نائک کو رواں برس 7 مارچ کو اُدھم پور میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا، پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 2018 سے گرفتاری سے بچنے کے لئے رو پوش تھے۔ تاہم ڈاکٹر باری کے اہلخانہ کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر باری کو ادھمپور گورنمنٹ ڈگری کالج میں تعینات کیا گیا تھا اور سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔