ETV Bharat / state

کیرالہ میں مسلم کنبہ نے ہندو شخص کی آخری رسومات ادا کی

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 21, 2023, 1:51 PM IST

Kerala Muslim Family Cremates their Hindu Brother: سڑک سے اٹھائے گئے لاوارث یتیم کو مسلم کنبہ نے پالا پوسا، آخری عمر میں سہارا دیا اور اب موت کے بعد ہندو عقیدے کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کیں۔

Muslim Family in Kerala Cremates their Hindu Brother
Muslim Family in Kerala Cremates their Hindu Brother

تھیرو اننتھا پورم: جنوبی ریاست کیرالہ کے ملاپورم ضلع میں ایک مسلم کنبہ نے کئی دہائیوں تک ایک ہندو شخص کو اپنے گھر میں پناہ دی، اسے پالا پوسا اور کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس گھر کا فرد نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں جب راجن نامی اس شخص کا انتقال ہوا تو مسلم کنبہ نے ہندو رسوم کے مطابق اس کا کریا کرم (آخری رسومات) کیا اور اب انتظار کیا جارہا ہے کہ ان کی راکھ کو پانی میں بہایا جائے۔

وتھانسری راجن اصل میں ضلع پلکاڈ کا رہنے والا ہے اور کم عمری میں ہی اپنے والدین سے محروم ہو گیا تھا۔ تقریباً چار دہائیاں قبل، جب ملاپورم کے ایک سماجی کارکن اور مقامی کانگریسی سیاست دان کے وی محمد نے اسے پوتھاناتھانی میں سڑک کے کنارے اس وقت دیکھا تھا جب وہ کھانا کھانے کے لیے وہاں رکے تھے۔ راجن بھوکا تھا، بدن پر کپڑے نہیں تھے اور حد درجہ کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ تبھی محمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس لڑکے کا سہارا بنیں گے۔ آج اس واقعہ کے انتالیس سال بعد راجن کا محمد کے گھر میں ہی انتقال ہوا حالانکہ محمد خود کئی برس پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔

  • خاندان میں رہتے ہوئے راجن 62 سال کے ہوگئے تھے

عالمون نارانی پوزا، محمد کے بڑے بیٹے ہیں جنہوں نے 62 سالہ راجن کی آخری رسومات ادا کیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق عالمون کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے ہندو بھائی کی آخری رسومات ادا کرتے ہوئے، اپنے عقیدے کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیا۔ کیرالہ کے مسلم اکثریتی ضلع مین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی یہ کہانی کریاکرم پر ہی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ لاش کو سپرد آتش کرنے کے بعد عالمون اب اپنے پیارے "بھائی" کی راکھ جمع کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، جسے وہ بھرتا پوزا ندی میں بہائیں گے۔

عالمون کے مطابق ان کے والد محمد نے راجن کو کھانے کھلانے کے بعد کہا کہ وہ اپنے گاؤں چلا جائے لیکن راجن بغیر کسی مقصد کے سڑک پر چلنے لگا۔ محمد نے دیکھا کہ وہ پھر بھٹکنے لگا ہے تو محمد نے اس کی رضامندی کے بعد اسے اپنے گھر پہنچادیا۔ راجن نے محمد کے کنمچتھو ویلاپل میں واقع گھر میں ایک نئی زندگی شروع کی۔ جہان محمد کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ راجن کو کچھ دنوں کے بعد گھر واپس بھیج دیا جائے، لیکن چونکہ نوجوان کے پاس واپس جانے کے لیے گھر جیسی کوئی جگہ نہیں تھی اور اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا، اس لیے محمد نے اسے رہنے دیا۔ آہستہ آہستہ راجن ان میں گھل مل گیا اور خاندان کا ایک فرد بن گیا۔

  • آٹھ سال بعد، محمد کا انتقال 65 سال کی عمر میں ہوا

عالمون نے کہا کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان سے راجن کو کسی شیلٹر ہوم کے حوالہ کرنے کو کہا۔ لیکن میں اُسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک ایسے شخص کو جسے میرے والد نے گھر میں لایا تھا، اس کی دیکھ بھال کرنا میرا بھی فرض ہے اور اس میں خیر کا ہی پہلو ہوگا۔

راجن، جو شاذ و نادر ہی اپنے آبائی گاؤں جاتا تھا، مسلمان گھر میں پلا بڑھا۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور زرعی زمین پر کام کرنے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ جب راجن حال ہی میں علیل ہوئے تو عالمون نے اسے اسپتال میں داخل کرایا اور ان کی تیمارداری کرتے رہے۔ جیسے ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی تو مقامی لوگوں نے پھر خاندان کو مشورہ دیا کہ وہ اسے کسی امدادی گھر یا پناہ گاہ میں چھوڑ دیں، لیکن انہوں نے توجہ نہیں دی۔

منگل کو، آخری رسومات سے پہلے، راجن کی لاش کو گھر میں لوگوں کے آخری دیدار کے لیے رکھا گیا تھا۔ لاش کے سرہانے ایک چراغ رکھا گیا تھا جس کی لو ٹمٹمارہی تھی۔ شمشان گھاٹ میں عالمون اور ان کے بھتیجے محمد ریشان نے چتا کو جلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی روح کے لیے تمام رسومات ہندو روایت کے مطابق کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم مسلمانوں کے طور پر رہتے ہیں اور راجن نے ایک ہندو کے طور پر ہمارے درمیان اپنی زندگی بسر کی۔ ہم ایک ہی چھت کے نیچے گزر بسر کرتے تھے۔ ہم مسجد جاکر نماز ادا کرتے رہے اور راجن مندر میں اپنی عقیدت کے مطابق پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ ہمارے درمیان کبھی کوئی امتیاز نہیں رہا، عالمون نے جو حلقہ کے سابق پنچایت رکن ہیں، نے ان باتوں کا خلاصہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Social Activist Cremates Unclaimed Body لاوارث لاشوں کا وارث ممبئی کے کریم باوا

Meet Shalu Saini ملیے لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے والی شالو سینی سے

ترال میں سکھ خاتون کی آخری رسومات ادا کرنے میں مسلمان پیش پیش رہے

تھیرو اننتھا پورم: جنوبی ریاست کیرالہ کے ملاپورم ضلع میں ایک مسلم کنبہ نے کئی دہائیوں تک ایک ہندو شخص کو اپنے گھر میں پناہ دی، اسے پالا پوسا اور کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس گھر کا فرد نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں جب راجن نامی اس شخص کا انتقال ہوا تو مسلم کنبہ نے ہندو رسوم کے مطابق اس کا کریا کرم (آخری رسومات) کیا اور اب انتظار کیا جارہا ہے کہ ان کی راکھ کو پانی میں بہایا جائے۔

وتھانسری راجن اصل میں ضلع پلکاڈ کا رہنے والا ہے اور کم عمری میں ہی اپنے والدین سے محروم ہو گیا تھا۔ تقریباً چار دہائیاں قبل، جب ملاپورم کے ایک سماجی کارکن اور مقامی کانگریسی سیاست دان کے وی محمد نے اسے پوتھاناتھانی میں سڑک کے کنارے اس وقت دیکھا تھا جب وہ کھانا کھانے کے لیے وہاں رکے تھے۔ راجن بھوکا تھا، بدن پر کپڑے نہیں تھے اور حد درجہ کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ تبھی محمد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس لڑکے کا سہارا بنیں گے۔ آج اس واقعہ کے انتالیس سال بعد راجن کا محمد کے گھر میں ہی انتقال ہوا حالانکہ محمد خود کئی برس پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔

  • خاندان میں رہتے ہوئے راجن 62 سال کے ہوگئے تھے

عالمون نارانی پوزا، محمد کے بڑے بیٹے ہیں جنہوں نے 62 سالہ راجن کی آخری رسومات ادا کیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق عالمون کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے ہندو بھائی کی آخری رسومات ادا کرتے ہوئے، اپنے عقیدے کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیا۔ کیرالہ کے مسلم اکثریتی ضلع مین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی یہ کہانی کریاکرم پر ہی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ لاش کو سپرد آتش کرنے کے بعد عالمون اب اپنے پیارے "بھائی" کی راکھ جمع کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، جسے وہ بھرتا پوزا ندی میں بہائیں گے۔

عالمون کے مطابق ان کے والد محمد نے راجن کو کھانے کھلانے کے بعد کہا کہ وہ اپنے گاؤں چلا جائے لیکن راجن بغیر کسی مقصد کے سڑک پر چلنے لگا۔ محمد نے دیکھا کہ وہ پھر بھٹکنے لگا ہے تو محمد نے اس کی رضامندی کے بعد اسے اپنے گھر پہنچادیا۔ راجن نے محمد کے کنمچتھو ویلاپل میں واقع گھر میں ایک نئی زندگی شروع کی۔ جہان محمد کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ راجن کو کچھ دنوں کے بعد گھر واپس بھیج دیا جائے، لیکن چونکہ نوجوان کے پاس واپس جانے کے لیے گھر جیسی کوئی جگہ نہیں تھی اور اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا، اس لیے محمد نے اسے رہنے دیا۔ آہستہ آہستہ راجن ان میں گھل مل گیا اور خاندان کا ایک فرد بن گیا۔

  • آٹھ سال بعد، محمد کا انتقال 65 سال کی عمر میں ہوا

عالمون نے کہا کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان سے راجن کو کسی شیلٹر ہوم کے حوالہ کرنے کو کہا۔ لیکن میں اُسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک ایسے شخص کو جسے میرے والد نے گھر میں لایا تھا، اس کی دیکھ بھال کرنا میرا بھی فرض ہے اور اس میں خیر کا ہی پہلو ہوگا۔

راجن، جو شاذ و نادر ہی اپنے آبائی گاؤں جاتا تھا، مسلمان گھر میں پلا بڑھا۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور زرعی زمین پر کام کرنے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ جب راجن حال ہی میں علیل ہوئے تو عالمون نے اسے اسپتال میں داخل کرایا اور ان کی تیمارداری کرتے رہے۔ جیسے ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی تو مقامی لوگوں نے پھر خاندان کو مشورہ دیا کہ وہ اسے کسی امدادی گھر یا پناہ گاہ میں چھوڑ دیں، لیکن انہوں نے توجہ نہیں دی۔

منگل کو، آخری رسومات سے پہلے، راجن کی لاش کو گھر میں لوگوں کے آخری دیدار کے لیے رکھا گیا تھا۔ لاش کے سرہانے ایک چراغ رکھا گیا تھا جس کی لو ٹمٹمارہی تھی۔ شمشان گھاٹ میں عالمون اور ان کے بھتیجے محمد ریشان نے چتا کو جلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی روح کے لیے تمام رسومات ہندو روایت کے مطابق کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم مسلمانوں کے طور پر رہتے ہیں اور راجن نے ایک ہندو کے طور پر ہمارے درمیان اپنی زندگی بسر کی۔ ہم ایک ہی چھت کے نیچے گزر بسر کرتے تھے۔ ہم مسجد جاکر نماز ادا کرتے رہے اور راجن مندر میں اپنی عقیدت کے مطابق پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ ہمارے درمیان کبھی کوئی امتیاز نہیں رہا، عالمون نے جو حلقہ کے سابق پنچایت رکن ہیں، نے ان باتوں کا خلاصہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Social Activist Cremates Unclaimed Body لاوارث لاشوں کا وارث ممبئی کے کریم باوا

Meet Shalu Saini ملیے لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے والی شالو سینی سے

ترال میں سکھ خاتون کی آخری رسومات ادا کرنے میں مسلمان پیش پیش رہے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.