کرناٹک اردو اکیڈمی کے سابق صدر ڈاکٹر وہاب عندلیب نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی کا گلبرگہ شہر سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے کئی مرتبہ گلبرگہ کے کئی تقریبات میں شرکت کی تھی۔ سنہ 1965 سے 2005 تک ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی نے ملک کے مشہور ادبی ماہ نامہ 'شب خون' کے وہ سر پرست رہے۔
شب خون میں شائع ہونے والے فاروقی صاحب کے مضامین نے انھیں ابتدا ہی سے شہرت کے بام عروج پر پہنچایا تھا۔ بھارت۔ پاکستان کے ممتاز شعراء، ادباء اور نقاد حضرات بھی قاروقی صاحب کی تحریروں اور ان کے تنقیدی مضامین کو نہایت قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
مرکزی حکومت نے شمس الرحمٰن فاروقی کو ان کی عظیم ادبی خدمات کا اعتراف کر تے ہوئے پدم شری کے اعزاز سے نوازا تھا۔ انھیں مرکزی ساہیتہ اکیڈمی کے انعامات سے بھی نوازا گیا تھا۔
فاروقی صاحب کی مشہور تصانیف میں شعر، غیر شعر اور نثر، افسانی کی حمایت میں چار جلدوں پر مشتمل شعر شرانگیز شامل ہیں۔ اس کتاب پر انھیں بھارت کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان سے نوازا کیا تھا۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی سر پرستی میں بھارت و پاکستان کی ادبی دنیا میں ہلچل پیدا کر دینے والا ادبی ماہ نامہ شب خون 1965 سے 2005 تک یعنی جملہ 40 برسوں تک شائع ہوتا رہا۔
سارے ملک میں ہرماہ اس پرچہ کی اشاعت و آمد کا انتظار رہتا تھا۔
ریاست کر ناٹک گلبرگہ شہر کے ادیبوں اور شاعروں کی بھی شمس الرحمٰن فاروقی سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھی، یہاں کے افسانہ نگاروں اور شاعری کو بھی شب خون میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
گلبرگہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر اکرام باگ، شاعر وافسانہ نگار حکیم شاکر، شعراء حضرات حمید الماس، انجینئر اکرام نقاش، ڈاکٹر انیس صدیقی نجم باگ، جبار جمیل، ڈاکٹر حمید سہروردی خمار قریشی، بشیر باگ، علیم احمد، خالد سعید قابل ذکر ہیں۔
مزید پڑھیں:
شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال پر ان کے آبائی گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ
شمس الرحمٰن فاروقی کا گلبرگہ شہر کا کئی مرتبہ دورہ کر چکے ہیں۔ گلبرگہ کےمقامی اردو ادیب ڈاکٹر انیس صدیقی اکثر فون پر شمس الرحمٰن فاروقی سے تبادلہ خیال بھی کیا کرتے تھے۔ فاروقی صاحب گلبرگہ کے قلم کاروں کا بڑا احترام کیا کر تے تھے۔
آج شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال پر گلبرگہ کے اردو ادباء و شعراء میں بھی مایوسی دیکھی جارہی ہے۔