بنگلور: کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر کی اس درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جس میں مرکزی حکومت کے 39 یو آر ایل کو ہٹانے کی ہدایت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ فروری 2021 سے فروری 2022 کے درمیان ٹویٹر کو جاری کیے گئے 10 بلاکنگ آرڈرز سے متعلق ہے، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کچھ معلومات تک عوام کی رسائی کو روکنے اور کئی اکاؤنٹس کو معطل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ جسٹس کرشنا ایس دکشت نے ٹوئٹر اور مرکزی حکومت کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ ٹویٹر نے حکومتی احکامات کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ من مانی ہیں، اور یہ آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 69A کے مطابق نہیں ہے۔ ٹوئٹر نے یہ بھی دلیل دی کہ اکاؤنٹ بلاک کرنے سے صارفین کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
اکاؤنٹ بلاک کرنے کی ہدایات کو آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 69A کی خلاف ورزی قرار دینے کے علاوہ، ٹوئٹر نے دعویٰ کیا کہ حکومتی احکامات 2009 کے بلاک کرنے کے قوانین کی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔ مرکز نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ احکامات قومی اور عوامی مفاد میں جاری کیے گئے ہیں۔ ان کا مقصد لنچنگ اور ہجومی تشدد کے واقعات کو روکنا تھا۔ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس وقت مداخلت کرتی ہے جب ملک کی خودمختاری یا امن عامہ کو خطرہ ہو۔ اس نے دلیل دی کہ کمپنی ایک غیر ملکی ادارہ ہے اور حکومت کے 10 احکامات من مانی نہیں ہیں۔ لہذا، ٹویٹر بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات کا حق) اور آرٹیکل 19 (اظہار رائے کی آزادی) کے تحت مالکانہ حق حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ٹویٹر کے پاس صارفین کی مدد کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے، مرکز نے استدلال کیا کہ ٹویٹر کے پاس بھی پٹیشن دائر کرنے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے کھاتہ داروں کی طرف سے بات نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: Online Autorickshaw Fee کرناٹک ہائی کورٹ نے آن لائن آٹورکشا سروس فیس پر پانچ فیصد کی حد پر روک لگا دی