ETV Bharat / state

Karnataka Hijab Issue: حجاب معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کی بڑی بینچ کے سُپرد

author img

By

Published : Feb 9, 2022, 4:28 PM IST

Updated : Feb 10, 2022, 7:54 AM IST

کرناٹک ہائی کورٹ کی جسٹس کرشنا دکشت کی سنگل بینچ نے کالجوں میں حجاب پر پابندی Hijab Ban in Karnataka Colleges کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو بڑی بینچ کو بھیج دیا۔

کرناٹک ہائی کورٹ
کرناٹک ہائی کورٹ

کرناٹک میں حجاب معاملے پر اب کرناٹک ہائی کورٹ Karnataka High Court on Hijab Ban کی بڑی بینچ فیصلہ کرے گی۔ بدھ کو اس معاملے کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ کے جسٹس کرشنا دکشت کی سنگل بینچ نے معاملے کو بڑی بینچ کو بھیج دیا ہے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

اس کے ساتھ ہی کرناٹک سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حجاب کا تنازع مزید گرما گیا ہے۔ اب سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں کود پڑی ہیں اور الزامات اور جوابی الزامات کا دور جاری ہے۔

جسٹس دکشت نے حکم میں کہا کہ عبوری ریلیف کے سوال پر بھی بڑی بینچ غور کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی اب سب کی نظریں کرناٹک ہائی کورٹ کی بڑی بینچ پر لگی ہوئی ہیں۔

کرناٹک ہائی کورٹ میں منگل کو بھی سماعت ہوئی تھی۔ عدالت کی سنگل بینچ نے بدھ کو اس معاملے کو بڑی بینچ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت میں درخواست گزاروں کی جانب سے دلیل دی گئی کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور اسے بڑے بینچ کو بھیجنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہی حکومت کرناٹک کی جانب سے پیش ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے میں داخل کی گئی تمام درخواستیں غلط ہیں۔ ان درخواستوں میں حکومت کے حکم پر سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ حکومت نے تمام اداروں کو خود مختاری دے رکھی ہے۔ اس پر ریاست فیصلہ نہیں کرتی۔

کیا ہے پورا معاملہ:

کرناٹک حکومت نے ریاست میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعہ 133 کو نافذ کیا ہے جس کی وجہ سے تمام سکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس کے تحت سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مقررہ یونیفارم پہنا جائے گا جبکہ پرائیویٹ اسکول و کالجز اپنی مرضی سے یونیفارم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

اس فیصلے پر تنازع گزشتہ ماہ جنوری میں شروع ہوا تھا جب اُڈوپی کے ایک سرکاری کالج کی 6 طالبات حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوئیں لیکن انہیں کیمپس سے نکال دیا گیا۔

اس کے بعد کنڈا پور اور بندور کے کچھ دوسرے کالجوں سے بھی ایسے ہی معاملے سامنے آئے۔

مجموعی طور پر معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے تاہم حجاب کو لے کر کئی اضلاع میں کشیدگی پیدا ہوئی گئی جس میں باحجاب طالبات کی مخالفت میں بھگوا شر پسندوں نے بھگوا شال اور بھگوا مفلر پہن کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔

حالات کشیدہ ہوتا دیکھ کر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 25(1) ضمیر کی آزادی اور آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس آزادی کے استعمال میں کوئی مداخلت یا رکاوٹ نہ ہو۔ تاہم تمام بنیادی حقوق کی طرح، ریاست عوامی نظم، شائستگی، اخلاقیات، صحت اور دیگر ریاستی مفادات کی بنیاد پر حق کو محدود کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ کن مذہبی طریقوں کو آئینی طور پر تحفظ دیا جا سکتا ہے اور کن چیزوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ 1954 میں سپریم کورٹ نے شرور مٹھ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ لفظ 'مذہب' میں وہ تمام رسومات اور عادات شامل ہوں گی جو مذہب کے لیے 'اٹوٹ' ہیں۔

کرناٹک میں حجاب معاملے پر اب کرناٹک ہائی کورٹ Karnataka High Court on Hijab Ban کی بڑی بینچ فیصلہ کرے گی۔ بدھ کو اس معاملے کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ کے جسٹس کرشنا دکشت کی سنگل بینچ نے معاملے کو بڑی بینچ کو بھیج دیا ہے۔

بشکریہ ٹویٹر
بشکریہ ٹویٹر

اس کے ساتھ ہی کرناٹک سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حجاب کا تنازع مزید گرما گیا ہے۔ اب سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں کود پڑی ہیں اور الزامات اور جوابی الزامات کا دور جاری ہے۔

جسٹس دکشت نے حکم میں کہا کہ عبوری ریلیف کے سوال پر بھی بڑی بینچ غور کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی اب سب کی نظریں کرناٹک ہائی کورٹ کی بڑی بینچ پر لگی ہوئی ہیں۔

کرناٹک ہائی کورٹ میں منگل کو بھی سماعت ہوئی تھی۔ عدالت کی سنگل بینچ نے بدھ کو اس معاملے کو بڑی بینچ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت میں درخواست گزاروں کی جانب سے دلیل دی گئی کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور اسے بڑے بینچ کو بھیجنے کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہی حکومت کرناٹک کی جانب سے پیش ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے میں داخل کی گئی تمام درخواستیں غلط ہیں۔ ان درخواستوں میں حکومت کے حکم پر سوال اٹھایا گیا ہے جبکہ حکومت نے تمام اداروں کو خود مختاری دے رکھی ہے۔ اس پر ریاست فیصلہ نہیں کرتی۔

کیا ہے پورا معاملہ:

کرناٹک حکومت نے ریاست میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعہ 133 کو نافذ کیا ہے جس کی وجہ سے تمام سکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس کے تحت سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں مقررہ یونیفارم پہنا جائے گا جبکہ پرائیویٹ اسکول و کالجز اپنی مرضی سے یونیفارم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

اس فیصلے پر تنازع گزشتہ ماہ جنوری میں شروع ہوا تھا جب اُڈوپی کے ایک سرکاری کالج کی 6 طالبات حجاب پہن کر کالج میں داخل ہوئیں لیکن انہیں کیمپس سے نکال دیا گیا۔

اس کے بعد کنڈا پور اور بندور کے کچھ دوسرے کالجوں سے بھی ایسے ہی معاملے سامنے آئے۔

مجموعی طور پر معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے تاہم حجاب کو لے کر کئی اضلاع میں کشیدگی پیدا ہوئی گئی جس میں باحجاب طالبات کی مخالفت میں بھگوا شر پسندوں نے بھگوا شال اور بھگوا مفلر پہن کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔

حالات کشیدہ ہوتا دیکھ کر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 25(1) ضمیر کی آزادی اور آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس آزادی کے استعمال میں کوئی مداخلت یا رکاوٹ نہ ہو۔ تاہم تمام بنیادی حقوق کی طرح، ریاست عوامی نظم، شائستگی، اخلاقیات، صحت اور دیگر ریاستی مفادات کی بنیاد پر حق کو محدود کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ کن مذہبی طریقوں کو آئینی طور پر تحفظ دیا جا سکتا ہے اور کن چیزوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ 1954 میں سپریم کورٹ نے شرور مٹھ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ لفظ 'مذہب' میں وہ تمام رسومات اور عادات شامل ہوں گی جو مذہب کے لیے 'اٹوٹ' ہیں۔

Last Updated : Feb 10, 2022, 7:54 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.