دہلی: چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس کرشنا مراری اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کی عرضیوں کا نوٹس لیا کہ درخواستیں بہت پہلے دائر کی گئی تھیں لیکن انہیں ابھی تک سماعت کے لیے درج نہیں کیا گیا ہے۔ بھوشن نے کہا، 'لڑکیاں اپنی پڑھائی سے محروم ہو رہی ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا ہے'۔ اس پر بینچ نے کہا، 'ابھی تک دو بینچ کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس معاملہ کو دوبارہ بینچ کو سونپنا ہوگا۔ اسے اگلے ہفتے کسی دن مناسب بینچ کے سامنے درج کیا جائے گا'۔
قابل ذکر ہے کہ 15 مارچ کو ہائی کورٹ نے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کی اجازت دینے کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیلوں کی فوری سماعت کے لیے 26 اپریل کے معاملہ کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں داخل کی گئیں۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا کوئی مذہبی لازمی عمل نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج اُڈپی کی مسلم طالبات کے ایک حصے کی درخواست کو خارج کر دیا تھا کہ انہیں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواستوں میں سے ایک درخواست گزار نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ نے یہ مشاہدہ نہیں کیا ہے کہ حجاب پہننے کا حق بھارت کے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت پرائیویسی کے حق کے دائرے میں آتا ہے۔ اپنی صوابدید پر مبنی فیصلے کرنے کی آزادی رازداری کے حق کا ایک حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Hijab Controversy in India: کیا حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟