بنگلور: شریعت اسلام کا یہ حکم ہے کہ عید الفطر سے قبل صاحب استطاعت کی جانب سے فطرہ دیا جائے کہ یہ عمل رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل بتاتا یے۔ فطرے کے متعلق بات کرتے ہوئے مولانا سید ظہور قاسمی نے بتایا کہ فطرہ دین اسلام میں واجب کا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ادا کرنا لازمی ہے۔
مولانا ظہور قاسمی نے بتایا کہ فطرے کا اصل مقصد یہ ہے کہ بندے سے روزوں میں جو کمی بیشی ہوئی ہو وہ پوری ہوسکے اور دوسرا یہ کہ غریب و مسکین افراد بھی اپنی عید خوشیوں سے منا سکیں۔ مولانا نے بتایا کہ پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم عید سے قبل فطرانہ ادا کیا کرتے تھے تاکہ ضرورتمند اپنی عید مناسکے۔
مولانا ظہور نے بتایا کہ صدقہ فطر ہر مالدار پر واجب نہیں ہے بلکہ اس شخص پر لازم یے جس کے پاس 52.5 تولہ چاندی ہو اور وہ اس کا مالک ہو یا پھر اتنی چاندی کے جتنے رقم کا مالک کو تو اس پر صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے۔ انہیں نے بتایا کہ صدقہ فطر زندگی بھر ساقت نہیں ہوتا۔ مولانا ظہور قاسمی نے بتایا کہ جب ایک صاحب استطاعت مرد پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تو اس کے نابالغ بچوں پر بھی واجب ہوتا ہے اور اگر اس مرد کے بالغ بچے ہوں اور وہ ان کا بھی صدقہ فطر دینا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ شخص اپنی بالغ اولاد کو اس کے متعلق بتادے۔
مولانا ظہور قاسمی نے صدقہ فطر کی مقدار کے متعلق پیارے نبی کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ صدقہ فطر کی مقدار حیثیت کے بنا پر طے کیا جاتا ہے، جیسے ایک شخص صاحب نصاب ہے لیکن مالی اعتبار سے کمزور ہے تو وہ 1.75 کلو گیہوں یا اس کی قیمت تقریباً 75 دیکر صدقہ فطر ادا کرےگا۔ اسی طرح جو شخص صاحب نصاب ہو مالی اعتبار سے ٹھیک ہو تو وہ 3.5 کلو جو یا بارلی جس کی قیمت تقریباً 280 روپے ہوگی وہ اسے دیکر فطرانہ ادا کرےگا۔ اسی طرح جو شخص مالدار ہو تو وہ 3.5 کلو کھجور یا کشمش جس کی قیمت تقریباً 800 یا 900 روپے ہوگی اسے دیکر صدقہ فطر ادا کرےگا۔
یہ بھی پڑھیں: Ramadan 2023 صدقہ اور زکوٰۃ انسان کو پاکیزہ بناتا اور بلاؤں کو دور کرتا ہے