ای ٹی وی بھارت نے جب اس معاملے پر ریاست کرناٹک کے گلبرگہ شہر کے لوگوں سے بات کی تو یہاں کے عوام نے بتا یا کہ شادی کی عمر بڑھانے کے جائے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے۔
عوام کا کہنا ہے تھا کہ ملک ہو رہے لڑکیوں پر ریپ اور ظلم وستم پر قابو پانے کے لئے سختی سے قانون بنایا جائے۔
اس کے علاوہ لڑکیوں تعلیمی، سماجی، سیاسی میدان ریزرویشن دینے کی بات کہی گئی ہے۔
اس دوران سابقہ کوڈا چیرمن اصغر چلبل نے بتاتے ہوئے کہا کہ سنہ 1929 میں شاردا کمیشن کی سفارش پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 14 برس اور لڑکوں کی شادی کی عمر 18 برس کی گئ تھی۔
اس میں 1978 میں اس قانون میں ترمیم کر کے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 برس اور لڑکوں کی شادی کی عمر 21برس کی گئی ہے۔
لڑکپن میں ہونے والے شادیوں کو سختی سے پابندی عائد کر نے کے لئے 2006 میں سخت قانون بنا گیا۔
تاہم ابھی تک 18 برس کی عمر کے قانون کو پوری طرح سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ مگر مرکزی حکومت دوبارہ اس میں ترمیم کر نے میں لگی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اس قانون میں ترمیم کر نے کے بجائے حکومت ان تین سالوں میں غریب طبقے لڑکیوں کو کیا سہولت دے تو وہ بہتر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لڑکیوں والدین کو اس قانون سے بڑی مشکل ہو سکتی ہے، کیوں دیہاتوں میں غریب عوام جب اپنی لڑکی شادی کے لائق ہوتی ہے. اسی دن سے لڑکی کی شادی کی فکر میں رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں ان تین سال میں حکومت لڑکیوں تعلیمی، معاشی زندگی کے لئے کیا سہولت فراہم کر نے والی وہ سب سے پہلے جاری کرے۔
اس دوران شرامہ جیوی گلا تنظیم کے صدر چندر شیکھر نے کہا کہ لڑکیوں کے شادی کی عمر اضافہ ہونے پر لڑکیوں کو اپنے تعلیمی کو مکمل کر نے اور اپنے لایف پاٹنر کو سمجھنے کا ایک موقع ملتا ہے۔
انھوں نے اس قانون کو کارآمد بتایا۔
یہ بھی پڑھیے:بیسٹ ٹیچر ایوارڈ تقریب کا انعقاد
اس دوران ڈاکڑ غزالہ نے کہا لڑکیوں کی شادی کی عمر میں تبدیلی کر نے بجائے لڑکیوں کے لئے دیہاتوں میں اسکول و کالج کی سہوت فراہم کر نے اور سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لئے پوری طرح سہولت فراہم کر نے کو بتا یا۔
تاہم ایک گھریلو خاتون نے اس ترمیم کی بے بنیاد بتایا، وہیں ایک طالبہ نے بتایا کہ لڑکیوں کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔