ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور میں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے 'بفٹ ہال' کوینس روڑ میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں جماعت کے قومی صدر سید سعادت اللہ حسینی اور ریاستی صدر سعد بیلگامی نے حالات حاضرہ پر گفتگو کی۔
بحث کا موضوع تھا کہ ہمارے ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کی طاقت منتشر ہوگئی اور اقلیت بن کر رہ گئی، اس کے ساتھ ہی معاشی، سماجی، تعلیمی و سیاسی پسماندگی میں بھی اضافہ ہوا، اور دوسری جانب فسطائی طاقتوں نے مسلسل ترقی کی اور اس وقت جارحانہ قوم پرستی کا ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ نفرت، بد امنی، لاقانونیت، ظلم و زیادتی اور استحصال کا بازار گرم ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے کی گئی آر ٹی آئی ترمیمات، طلاق ثلاثہ، یو اے پی اے اور کشمیر بل پاس کئے گئے ہیں۔ اس سے آنے والے دنوں کے آثار صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے صدر سعد بیلگامی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جمعرات کی صبح ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں شہر کے مختلف سماجی و دینی اداروں کے ذمے داران و اہم اشخاص کو مدعو کیا گیا، اور اس میں ملک کی موجودہ پیچیدہ صورتحال پر بحث و مباحثہ ہوا اور سبھی اشخاص نے مشترکہ طور پر ایک 'اعلامیہ' جاری کیا جس کے ذریعے مسلمانان ہند، حکومت ہند و خاص طور پر مسلم تنظیموں سے اپیل بھی کی گئی ہے۔
ان حالات میں ملت کے مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں نے، علماء و معززین کے مذکورہ نمائندہ اجلاس میں تفصیلی غور و خوض کے بعد درج ذیل امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس مشترکہ اعلامیہ کے ذریہ دج ذیل اعلامیہ کو مسلمانان ہند، حکومت ہند و مسلم تنظیموں سے اپیل کی گئی۔
اعلامیہ کے اہم نکات یہ رہے کہ مسلمانان ہند حالات کا مقابلہ عزم و حوصلہ، صبر و ہمت، حکمت و دانش مندی، خود اعتمادی اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے کریں۔ مسلم تنظیمیں ایک دوسرے کی قدردانی اور مشترکہ مقاصد کے لئے مل جل کر جدوجہد کرنے کا رواج ڈالیں۔ نوجوانوں کو تعمیری کاموں پر لگائیں اور رد عمل کے جزبات سے روکیں۔
اس اجلاس میں موجود سرکردہ شخصیات نے اس مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کئے، جن میں خاس طور پر مولانا صغیر احمد رشادی، مولانا شبیر ندوی، کرناٹک مسلم متحدہ محاذ کے کنوینر مسعود عبد القادر، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خواتین ونگ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر آصفہ اور ریٹائرڈ آئ جی پی ایم ایف پاشاہ وغیرہ بھی تھے۔