بنگلور: حال ہی میں آکسفیم کی جانب سے ایک رپورٹ سرائیول آف دی ریچسٹ دی انڈیا اسٹوری جاری گئی ۔اس اسٹوری میں کئی فائنڈنگس کا خلاصہ کیا گیا ہے. اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک کے ایک فیصد لوگوں کے پاس ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت جمع ہے ۔اور اس سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ عوام میں دولت کی تقسیم کے معاملہ میں مساوات کے پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔جو کہ ملک کے لئے خطرہ ہے. آکسفیم ریپورٹ پر بحث کرنے کی غرض سے دارالحکومت کے بنگلور انٹرنیشنل سینٹر میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں سول سوسائٹی کے اہم ممبران نے شرکت کی۔
اس سلسلے میں کہ آکسفیم نے اس رپورٹ کی ریسرچ کیسے کی؟ اس ریپورٹ کے متعلق حزب اختلا ف جماعتوں کا نطر یہ کیا ہے؟ اس کے حل کیا ہوسکتے ہیں۔ ان تمام تر امور کے تعلق سے آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہر، پروفیسر راجیو گوڑا اور تارا کرشنہ مورتی نے ای ٹی وی بھارت کو تفصیلات سے واقف کرایا۔ آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بہر نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب ملک بھوک، بے روزگاری، مہنگائی اور صحت جیسے متعدد بحرانوں سے دوچار ہے، بھارت کے ارب پتی خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب بھارت میں غریب لوگ زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات بھی برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔
بھوک کا شکار بھارتیوں کی تعداد 2022 میں بڑھ کر 350 ملین ہو گئی جو 2018 میں 190 ملین تھی. 2022 میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں 65 فیصد اموات وسیع پیمانے پر بھوک کے نتیجے میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار مرکزی حکومت ہ کے ہیں جو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں پائے گئے فائنڈنگس کو اگر مسلے کے طور پر دیکھا جائے اور حل کی بات کی جائے تو رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر بھارت کے ارب پتیوں اور ان کی پوری دولت پر ایک بار 2 فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے، تو اس سے اگلے تین سالوں تک ملک میں غذائی قلت کے شکار افراد کی غذائیت کے لیے 40,423 کروڑ روپے کی ضرورت پوری ہوجائیگی۔
آکسفیم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے 100 امیر ترین افراد کی مشترکہ دولت 660 بلین ڈالر (54.12 لاکھ کروڑ روپے) کو پہنچ چکی ہے اور یہ ایک ایسی رقم ہے جو 18 ماہ سے زیادہ کے لیے پورے مرکزی بجٹ کو فنڈ دے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:Rahul Gandhi Slams Modi Government: 'بھارت کی معیشت میں ڈبل اے ویریئنٹ، ہر جگہ اڈانی امبانی'