سنہ 1978 دیوراج ارس کے دور میں کل 18 مسلم رہنما الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے تھے لیکن گذرتے وقت کے ساتھ مسلم نمائندگی کم ہو گئی ہے۔
سنہ 2013 میں کرناٹک اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد 12 رہی جب کہ گزشتہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد میں بڑی گراوٹ آئی اور یہ تعداد 7 رہ گئی ہے۔
اسمبلی میں مسلم ارکان کی کم ہوتی تعداد کے لئے کبھی مسلم قائدین کی نا اتفاقی کو وجہ بتایا جاتا ہے تو کہیں سیاسی پارٹیوں پر مناسب نمائندگی نہ دینے الزام عائد کیا جاتا ہے اور کہیں مسلم اکثریتی انتخابی حلقوں میں ایس سی۔ ایس ٹی ریزرویشن کو وجہ بتایا جاتا ہے۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے تنظیم صدائے اتحاد کے بانی و سرپرست مجاہد علی بابا کہتے ہیں کہ 'مسلم رہنماؤں میں انانیت و باہمی رسا کشی ایک بڑی کمزوری ہے اور اس کے علاوہ مسلم اکثریتی حلقوں میں متعدد مسلم امیدواروں کا انتخابی میدان میں اترنا بھی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔'
مزید پڑھیں:
'مضبوط خاندان مضبوط سماج' کے عنوان سے مہم کا آغاز
مسلم اراکین کی تعداد بڑھانے کے سلسلے میں ایس ڈی پی آئی کے ریاستی سیکریٹری اکرم حسن کہتے ہیں کہ 'علماء و دانشوران اپنا رول ادا کریں، مسلمانوں سمیت دیگر کمزور طبقات میں اتحاد پیدا کریں، ایماندار، قابل و ہونہار نوجوانوں کو تربیت دے کر انہیں انتخابی میدان میں اتاریں۔ اس سے نئی نسل میں سیاسی قیادت پیدا ہوگی۔