اس مدرسے کو مدرسہ محمود گاوان کا نام دیا گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ درسگاہ اس زمانے میں ایشیا کی واحد منفرد یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس مدرسے میں طلباء کے لیے عربی و فارسی کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا تھا۔
اساتذہ اور طلباء کو رہنے اور کھانے کا انتظام اسی مدرسے میں ہوا کرتا تھا۔
مدرسے کے ایک جانب مسجد اور دوسری جانب دارالمطالعہ کی تعمیر کی گئی تھی۔ اسی عمارت کے دونوں اطراف خوبصورت مینار تھے جن میں سے آج ایک ہی مینار باقی ہے اور مسجد بھی محفوظ ہے جس میں آج بھی نماز ادا کی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 1107 ھجری بمطابق 1695 عیسوی میں اس عمارت پر بجلی گرنے سے مدرسے کی عمارت کی کمان اور ایک مینار منہدم ہوگیا۔
شہر بیدر کی اس عظیم الشان عمارت اپنی خوبصورتی وہ علمی سرگرمیوں کی وجہ سے جو کبھی پورے ایشیا میں مشہور تھی آج اپنی زبوں حالی پر آنسو بہاتی نظر آرہی ہے۔