دو برس قبل ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں منصور خان نام کے شخص کی آئی مانیٹر ایڈوائزری نامی ایک پونزی کمپنی نے حلال سرمایہ کاری کے نام پر ہزاروں انویسٹرز کے ساتھ تقریباً 4 ہزار روپیوں کی دھوکہ دہی کی تھی جس کے بعد آئی ایم اے پونزی اسکیم کا معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں کے پی آئی ایکٹ کے تحت چلا لیکن سرمایہ کار ابھی بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ IMA Ponzi scheme investors Will Get Their Capital Back
سماجی کارکن اور دی ہیلپنگ سٹیزن کے صدر عالم پاشاہ نے آئی ایم اے پونزی اسکیم کو 'کارپوریٹ فراڈ' قرار دیا اور اس اسکیم کے ہزاروں متاثرین کے انصاف و ان کے سرمایہ کو واپس دلوانے کی غرض سے سیریئس فراڈ انویسٹی گیشن آفس(ایس ایف آئی او) منسٹری آف کارپوریٹ افیئرز کو شکایت درج کرائی ہے۔ اس سلسلے میں میں آئی ایم اے پونزی اسکیم کی سی بی آئی سے ہوئی جانچ کے دوران اس کے سرغنہ منصور خان کی ضمانت کو چیلینج نہ کیے جانے پر عالم پاشاہ نے سوال اٹھایا ہے۔ آئی ایم اے پونزی اسکیم کے معاملے کو ایس ایف آئی او کو سونپنے کے بعد عالم پاشاہ نے امید ظاہر کی ہے کہ سرمایہ کاروں کی رقم انہیں ضرور ملے گی۔
تفصیلات کے مطابق بنگلور کے منصور خان نامی شخص نے لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کا جھانسہ دے کر ان کا سرمایہ ہڑپ کر لیا تھا۔ منصور خان نے 2006 میں بنگلور میں آئی مانیٹری ایڈوائزری (آئی ایم اے) نامی ایک کمپنی بنائی جس میں اس نے اسلامی اصولوں کے عین مطابق منافع کے وعدے کیے اور ان سے تقریباً 4 ہزار کروڑ روپے حاصل کئے تاہم پولیس کو تقریباً 50 ہزار کے قریب سرمایہ کاروں کی شکایات موصول ہوئیں کہ انہیں کمپنی سے منافع ملنا بند ہوگیا ہے جس کے بعد ریاست کرناٹک کی پولیس نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا۔
تقریباً 40 ارب روپے کا یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد کرناٹک حکومت کی اعلیٰ شخصیات سمیت 20 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ مذکورہ رقم منصور خان کی کمپنی کی جانب سے دی گئی تھی جب کہ اس کے پاس ابھی بھی سرمایہ کاروں کے 20 کروڑ ڈالر موجود ہیں۔ پولیس کی جانب سے ریاست کے 2 بڑے سیاست دانوں سے بھی تفتیش کی گئی جن میں ایک سے منصور خان نے 5 کروڑ ڈالر ادھار لیے تھے، تاہم سیاست داں نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔
خیال رہے کہ پونزی اسکیم ایک ایسا فراڈ ہے جس میں سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کی پیشکش کا لالچ دیا جاتا ہے اور انہیں یہ رقوم دیگر افراد سے لے کر ادا بھی کی جاتی ہیں، تاہم جیسے ہی اس میں سرمایہ کاروں کا شامل ہونا بند ہوجاتا ہے تو یہ نظام پوری طرح ختم ہوجاتا ہے۔ تفتیش کاروں نے بتایا کہ آئی ایم اے نامی کمپنی لوگوں کو سالانہ 30 فیصد تک منافع کی پیشکش کرتی تھی۔ تاہم کمپنی کا موقف ہے کہ اس نے لوگوں کے سرمائے کو ہیرے اور سونے کے کاروبار کے ساتھ ساتھ ریئل اسٹیٹ میں بھی لگایا۔
واضح رہے کہ بھارت اسلامی بینکنگ کے تصور کو قبول نہیں کرتا جو سرمایہ کاروں کو سود کی بنیاد پر منافع سے باز رکھتا ہے، تاہم کچھ نجی کمپنیاں ملک کی 17 کروڑ مسلمان آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت کے مطابق منافع بخش اسکیم چلاتی ہیں۔ یاد رہے کہ بھارتی پولیس ریاست مغربی بنگال میں بھی سردھا گروپ کے خلاف 6 ارب ڈالر کی پونزی اسکیم کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں تقریباً 15 لاکھ افراد نے سرمایہ کاری کی تھی جب کہ یہ اسکیم 2014 میں خاتمے کا شکار ہوئی تھی۔