ریاست کرناٹک کے کالجز میں باحجاب طالبات کو داخلے نہ دینے کے خلاف ہائی کورٹ میں داخل کی گئی عرضی پر سماعت کل 16 فروری تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ Hijab Ban in Karnataka Colleges
قبل ازیں سماعت کرنے والی ایک رکنی بینچ نے اس معاملے کو چیف جسٹس ریتوراج اوستھی کے حوالے کیا تھا تاکہ اس معاملہ میں وسیع تر بینچ تشکیل دی جائے۔
-
Hearing in the #HijabRow matter before Karnataka High Court to continue tomorrow, 16th February.
— ANI (@ANI) February 15, 2022 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
">Hearing in the #HijabRow matter before Karnataka High Court to continue tomorrow, 16th February.
— ANI (@ANI) February 15, 2022Hearing in the #HijabRow matter before Karnataka High Court to continue tomorrow, 16th February.
— ANI (@ANI) February 15, 2022
چیف جسٹس نے حجاب معاملہ کی سماعت کے لیے سہ رکنی بنچ تشکیل دی ہے، جس میں ان کے علاوہ جسٹس کرشنا دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی شامل ہیں۔Hijab Case Continues in Karnataka High Court۔
واضح رہے کہ جمعہ کو عدالت نے ریاست سے درخواست کی تھی کہ ابتدائی تعلیمی ادارے دوبارہ کھولے جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت دی کہ جب تک اس کورٹ میں معاملے کی مکمل سنوائی اور فیصلہ نہ ہو تب تک کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی مذہب کا کیوں نہ ہو، مذہبی لباس پہن کر کلاسز میں داخل نہ ہو۔
عدالت ایک وکیل کی درخواست کا جواب دے رہی تھی جس نے اس معاملے پر میڈیا اور سوشل میڈیا کے تبصروں پر پابندی کی درخواست کی تھی کیونکہ دوسری ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔
درخواست گزار طلباء کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈووکیٹ کامت نے کہا کہ 'قرآن پاک کے اسلامی صحیفے یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل واجب ہے، لہٰذا عدالتوں کو اس کی اجازت دینی چاہیے۔'
کامت کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے جسٹس دکشٹ نے پوچھا 'کیا قرآن میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ضروری مذہبی عمل ہے؟' اس کے جواب میں کامت نے کہا کہ 'میں بڑے مسائل پر تبصرہ نہیں کر رہا ہوں لیکن اس معاملے میں حجاب ایک ضروری مذہبی عمل ہے۔'
کامت نے یہ بھی کہا کہ 'اگر کوئی مذہبی عمل کسی کو نقصان پہنچاتا یا پبلک آرڈر کو مجروح کرتا ہے تب اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے معاملے کی کوریج کرتے ہوئے میڈیا پر پابندیاں لگانے سے بھی انکار کردیا۔ کورٹ نے کہا کہ 'ہم نے میڈیا سے اپیل کی ہے اگر آپ سب کہیں تو ہم لائیو اسٹریمنگ کو روک سکتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن ہم میڈیا کو نہیں روک سکتے۔
جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے، آپ ان ریاستوں کے ووٹرز نہیں ہیں جہاں انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابی امور کا فیصلہ الیکش کمیشن آف انڈیا کو کرنا ہے۔'