ریاست کرناٹک کے شہر گلبرگہ میں کاغذ پبلسشرز کی جانب سے خواجہ بندہ نواز ایوان اردو انجمن ترقی ہال میں جواں سال افسانہ نگار محمد عرفان ثمین کا اولین افسانوی مجموعہ 'چراغوں کے اندھیرے' کتاب کا رسم اجرا عمل میں آیا۔
محمد عرفان ثمین موجودہ افسانہ نگاروں میں ایک ابھرتا ہوا نام ہے۔ نوجوان نسل میں وہ ایک نمایاں افسانہ نگار کی حیثیت سے اردو ادب کی افق پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے افسانے ملک کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں اور اپنے قارئین سے دادوتحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے بعض افسانے قاری کے ذہن کو اپیل کرتے ہیں۔
عرفان ثمین کے اس افسانوی مجموعہ 'چراغوں کے اندھیرے' میں 13 افسانے شامل ہیں۔ جن کے نام چراغوں کے اندھیرے، سوکھے پیڑ سبز پتے، اک شکستہ سی شاخ شجر، خلش پھولوں کی، مجھے دریا پار اتار دے، پتھروں کے شہر کا شیشہ گر، اسکالرشپ اور دیگر شامل ہیں۔
ان کے افسانے میں محبت، مروت، چاہت، اور انسانی ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے ملی مسائل کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔
عرفان ثمین کا ایک افسانہ 'انا کی بات بھی' جس میں طلاق کے مسائل کو بڑے سلیقے سے اٹھایا گیا ہے۔ اس میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ طلاق تو آخری اور ناپسندیدہ حل ہے۔ ان معاملات کو دیوانی عدالت سے نکال کر فوجداری عدالت کا مقدمہ بنانے میں رشتوں میں رخنہ ہی پیدا ہوگا۔
ساتھ ہی روشن خیال مرد عورت، میڈیا کے غیر ضروری ہنگامے، حقوق انسواں کے نام پر بننے والے قانون کی حقیقت کو اجاگر کر تے ہوئے اختتام کو بڑے شاندار انداز میں انہون نے پیش کیا ہے۔