بنگلور: دار الحکومت بنگلور میں اگلے مہینے منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ملت مینجمنٹ سوسائٹی آف انڈیا کی جانب سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں دہلی سے سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی کو مدعو کیا گیا۔ اس اجلاس میں شہر بنگلور کے متعدد سماجی تنظیموں کے ذمہ داران نے شرکت کی۔ ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے شہر میں اپنے دورے کے مقصد پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ملت مینجمنٹ سوسائٹی کی جانب سے الیکشنز کے پیش نظر عوام میں اور خاص طور پر ملت اسلامیہ میں ووٹر انرولمینٹ، ووٹ کرنے کی اہمیت کے متعلق سماجی تنظیموں کے ذمہ داران کو روشناس کیا کہ وہ آگے جاکر اپنے علاقوں و محلوں میں عام لوگوں کو ووٹنگ کی اہمیت کو بتائیں اور کوشش یہ کریں کہ ووٹر ٹرن آوٹ کو بڑھائیں۔ ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ ووٹ ڈالنا نہ صرف عوام کا ایک جمپوری حق ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے جسے نبھانا اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر قریشی نے بتایا کہ اس اجلاس میں ایک بات اٹھی تھی کہ ریاست میں کچھ ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں ووٹر ٹرن آوٹ بہت کم ہے، ایسی جگہوں پر سماجی تنظیموں کو چاہیے کہ یہاں پر زیادہ محنت کریں اور اس بات کا تیقن کریں کہ انتخابات کے دن ووٹر ٹرن آوٹ کو بڑھائیں۔ اس سوال پر کہ حال ہی میں مرکزی سطح پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے پھر سے ای وی ایم مشینوں کے استعمال پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایک مکتوب بھی لکھا گیا تھا جس کا کوئی جواب نہ آیا۔ لہٰذا وہ سیاسی پارٹیوں کے ای. وی. ایم پر اٹھ رہے اعتراضات کو کیسے دیکھتے ہیں، ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ سن 1982 ہی سے جب سے ای. وی. ایم مشینیں آئی ہیں تب ہی سے اس پر اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ پہلے کے بہ نسبت اب کی ای. وی. ایم مشینوں میں کافی فرق ہے چنانچہ اب کی مشینیں زیادہ ایڈوانسڈ ہیں اور اب تو وی. وی. پیٹ کا بھی سحیح طور پر استعمال ہو رہا ہے اور اس کے باوجود کہیں چند شکایات آرہی ہیں تو الیکشن کنیشن کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو مدعو کرکے ان کی شکایات یا اعتراضات کا ازالہ کرے، یہ ہو نہیں رہا ہے تو ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو بلائیں، ان کی شکایتوں و اعتراضات کو سنیں اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔
مزید پڑھیں: ووٹنگ سے متعلق بیداری کے لئے فون ان پروگرام کا آغاز
ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ سن 2009 میں جب وہ چیف الیکشن کمشنر رہے تو انہوں نے سیاسی جماعتوں کی سنی، اس وقت چندرا بابو نائیڈو نے شکایت کی تھی کہ ای وی ایم میں وؤٹ ڈالنے پر پتہ نہیں چلتا کہ کس کو ووٹ دیا ہے لہذا بہتر ہوگا کہ ووٹ ڈالنے کے ساتھ ایک پرچی چھپے، تو انہوں نے کہا کہ اس مشورے پر فوری طور پر عمل کیا اور وی. وی پیٹ کے نظام کو ای.وی ایم سے جوڑ دیا. لہٰذا جب سیاسی جماعتیں ای وی ایم سے ناخوش ہیں تو انہیں الیکشن کمیشن بلائے، بات کرے اور ان کے مسئلے کا حل نکالے نہ کہ سیاسی پارٹیوں کو اپنا دشمن سمجھیں کہ آخر الیکشن کمیشن کا یہ بنیادی کام ہے کہ الیکشن کو سبھی کے لئے پر اطمینان بنائے۔
اس سوال پر کہ چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ایک ڈیپارٹمنٹ کہا جاتا ہے کہ الیکشن. کمیشن کوئی کارروائی کرتا نظر نہیں آتا، ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو دستور نے اٹونامی دی ہے، اس کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ کسی بھی بڑے لیڈر کو سرزنش کرے. ڈاکٹر قریشی نے بتایا کہ اس دور میں کہ جب وہ الیکشن کمیشن میں ذمہ دار ہوا کرتے تھے تو اس وقت کے بڑے وزراء کو انہوں نے الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر چارج کیا تھا. پھر انہیں کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے ایسی کوئی شکایت نہیں ہے، لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اب الیکشن کمیشن اچھا کام کررہی ہے۔
ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے 'رائٹ ٹو ریکال" کے سلسلے میں بتایا کہ یہ قانون یا سہولت اور اس کی مانگ کرنا بھی سراسر غلط ہے. انہوں نے بتایا کہ انا ہزارے نے رائٹ ٹو ریکال و رائٹ ٹو ریجیکٹ کی مانگ کی تھی تو اس کے جواب میں ڈاکٹر قریشی نے کہا تھا کہ رائٹ ٹو ریکال ویسے ہی 5 سالوں میں ایک مرتبہ آتا ہے تو آپ پانچ سال بعد سیاست دان یا نمائندہ کو بدل لیں۔
ڈاکٹر قریشی نے ایک مثال دی کر سمجھایا کہ ملک کے کئی نکسل و بارڈر والی ریاستوں کے علاقوں میں الیکشنز ہوتے ہیں، ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک الیکشن میں ایک عوامی نمائندہ چن کر آتا ہے اور اگلے ہی چند دنوں میں چند ہزار لوگ اپلیکیشنز فائل کرینگے کہ چنندہ عوامی نمائندہ نالائق ہے لہذا اسے رائٹ ٹو ریکال کریں، تو ایسا اگر ہوتا رہا تو ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا. لہٰذا ڈاکٹر قریشی کے اس کی تفصیل سمجھانے کے بعد انا ہزارے نے رائٹ ٹو ریکال کی مانگ کو واپس لے لیا. انہوں نے کہا اسی طرح رائٹ ٹو ریجیکٹ مانگ کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔