انہوں نے مزید کہا کہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ گمشدہ ہوئے ہیں یا کو ئی انہیں لے گیا ہے۔
کانگریس رہنماء نے کہا کہ جو خط میڈیا میں شیئر ہورہا ہے وہ 27 جولائی کا ہے اور سدھارتھ نے 28 تاریخ کو مجھے فون کرکے پوچھا کہ کیا ہم مل سکتے ہیں۔مجھے یقین نہیں ہورہا ہےکہ ان کے جیسا ہمتی انسان اس طرح کے خط کا سہارا لے گا۔
وہیں کانگریس کے سینئر رہنماء سنجے نروپم نے کہا کہ مودی حکومت محکمہ انکم ٹیکس ، سی بی آئی کا غلط استعمال کررکے کاروباریوں کو پریشان کررہی ہے۔
نروپم نے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں سی سی ڈی نے کامیابی حاصل کی لیکن اچانک اس کے مالک سدھارتھ آج کہہ کررہے ہیں کہ وہ ایک کاروباری کے طور پر ناکامیاب رہےکہ اور وہ اب غائب ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ آخر کار سدھارتھ کو ناکام اقتصادی پالیسی نےکیا یا بازار کی طاقتور سرمایہ کاروں کے برتاؤ نے یا مندی کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے۔
واضح رہے کہ سی سی ڈی کے گمشدہ مالک نے ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنی مالی حالت اور کاروبار میں ناکامیاب ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔
کانگریس رہنماؤں کا سی سی ڈی مالک کے خط پر ردعمل - ڈی کے شیو کمار
کیفے کافی ڈے(سی سی ڈی) کے مالک کےملے خط پر کانگریش رہنماء ڈی کے شیو کمار نےکہا کہ اس حادثے پر یقین کرنا مشکل ہے اور وہ ملک کے ایک اثاثہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ گمشدہ ہوئے ہیں یا کو ئی انہیں لے گیا ہے۔
کانگریس رہنماء نے کہا کہ جو خط میڈیا میں شیئر ہورہا ہے وہ 27 جولائی کا ہے اور سدھارتھ نے 28 تاریخ کو مجھے فون کرکے پوچھا کہ کیا ہم مل سکتے ہیں۔مجھے یقین نہیں ہورہا ہےکہ ان کے جیسا ہمتی انسان اس طرح کے خط کا سہارا لے گا۔
وہیں کانگریس کے سینئر رہنماء سنجے نروپم نے کہا کہ مودی حکومت محکمہ انکم ٹیکس ، سی بی آئی کا غلط استعمال کررکے کاروباریوں کو پریشان کررہی ہے۔
نروپم نے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں سی سی ڈی نے کامیابی حاصل کی لیکن اچانک اس کے مالک سدھارتھ آج کہہ کررہے ہیں کہ وہ ایک کاروباری کے طور پر ناکامیاب رہےکہ اور وہ اب غائب ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ آخر کار سدھارتھ کو ناکام اقتصادی پالیسی نےکیا یا بازار کی طاقتور سرمایہ کاروں کے برتاؤ نے یا مندی کی وجہ سے وہ ناکام ہوئے۔
واضح رہے کہ سی سی ڈی کے گمشدہ مالک نے ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنی مالی حالت اور کاروبار میں ناکامیاب ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔
shamsher ali
Conclusion: