بیدر: ہر شہر میں یوں تو کئی صحافی ہوا کرتے ہیں، مگر ان میں چند لوگ اس لیے نمایاں ہو جاتے ہیں کیوں کہ انہوں نے صحافت کے میدان میں اپنی بھر پور خدمات انجام دی ہوتی ہے۔ ایسے ہی صحافیوں میں علاقائی زبان کے ایک سینئر صحافی شیو شرنپا والی بھی ہے۔ کرناٹک کے اتر کنڈا روزنامہ اخبار کے مدیر شیو شرنپا والی نے ای ٹی وی بھارت سے صحافت اور صحافی سے متعلق خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافت ایک مہذب اور معتبر شعبہ ہے۔ اتنے پر وقار اور اہمیت والے شعبہ کا معیار آج کل گرتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر صحافی کسی نہ کسی کا ترجمان بن کر رہ گیا ہے۔ حقیقت میں ایک صحافی کو غیر جانبدار رہنا چاہیے کیونکہ قاری کو اتنا بھروسہ ہونا چاہیے کہ اخبار کا ایڈیٹر اور اخبار کا نمائندہ جو لکھ رہا ہے وہ سچ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خبروں میں سچائی، حقائق اور قاری کے اعتماد کو قائم رکھنا ایک صحافی کا فرض ہوتا ہے۔ مجھے یہ سن کر اور دیکھ کر کافی افسوس ہوتا ہے کہ اکثر صحافی یہ کہتے ہیں کہ ہم پر دباؤ رہتا ہے میں یہ کہتا ہوں کہ کسی کے دباؤ میں رہنے والا حقائق اور سچائی کو سامنے نہیں لا سکتا۔ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ گذشتہ پچاس برسوں سے میرا تعلق پرنٹ میڈیا سے رہا ہے۔ سوشل میڈیا کو میں وقتیہ ضرورت مانتا ہوں۔ اس کی کوئی عمر نہیں ہوتی، لیکن جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے، برسوں تک آپ کو اپنے کارکردگی کو اپنے کارناموں کو محفوظ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں صحافیوں کو اپنا معیار اور مقام پہچاننے کی ضرورت ہے جہاں صحافی جانب دار ہوگا وہاں وہ حقائق کو منظر عام پر لانے سے کوسوں دور رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کو اپنے آپ کو سچائی کے لیے حق کے لئے سماج میں عدل و انصاف کے لیے عوام کی آواز بننے کے لیے اور سماج و ملک میں امن اور شانتی قائم کرنے کے لئے وقف ہونا پڑتا ہے، تب ہی وہ حقیقی معنوں میں صحافی کہلاتے ہیں، ورنہ صرف جرنلزم کورس کرنے والے طالب علم ہی رہیں گے۔ جہاں تک کورس کر کے صحافی بننے کا سوال ہے جرنلزم کی سند حاصل کرنے سے تجربہ حاصل نہیں ہوتا۔ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ کر جرنلزم کی سند حاصل کرکے ایک نوکری کر سکتے ہیں مگر صحافت نہیں کر سکتے کیونکہ صحافی بننے کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔