حکومت نے کہا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد فیک نیوز (جعلی خبریں) اور غلط اطلاعات کی کوششوں پر روک لگانا ہے۔ تاہم اس میڈیا پالیسی کو حکومت نے ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا ہے۔ وہیں صحافیوں کے علاوہ مختلف سیاسی نظریہ رکھنے والے لوگوں نے بھی اس نئی میڈیا پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
جموں کے گاندھی نگر میں آج پینتھرز پارٹی کے بانی پروفیسر بھیم نے نئی میڈیا پالسی پر پریس کانفرنس منعقد کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ مرکزی حکومت اب جموں و کشمیر میں صحافیوں کو تنگ کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ وہ بھی مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کرے۔'
انہوں اس میڈیا پالسی کو میڈیا پر کنٹرول کے متعارف قرار دیا، انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کے حقوق کے ساتھ یہ ناانصافی ہے کہ ان کی آواز کو دبایا جائے۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں کہا کہ اگر کوئی صحافی غلط خبر شائع کرتا ہے تو اس غلط خبر کے خلاف متعدد قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے تو اب فیک خبر کو روکنے کی آڑ میں میڈیا کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرکار اس پالسی کو واپس نہیں لیتی ہے تو وہ جلد ہی سپریم کورٹ میں اس میڈیا پالیسی کے خلاف عرضی دائر کریں گے۔ '
کانگریس کے ترجمان رویندر شرما نے سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ صحافیوں کے ساتھ مل کر پالیسی کو مرتب کرے نا کہ ایسی پالیسی بنائے جس سے میڈیا کو دبایا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کا قتل ہے جب میڈیا کو کنٹرول میں لے۔ نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر شیخ بشیر احمد نے کہا کہ یہ کوئی میڈیا پالیسی نہیں بلکہ یہ میڈیا پر تالا لگانا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا پالیسی نہیں بلکہ بی جے پی کے اشاروں پر چلنے کی پالیسی ہے۔ نیشنل کانفرنس اس طرح کی میڈیا پالیسی کی مذمت کرتی ہے جس میں بولنے کی آزادی نہ ہوں'۔
واضح رہے کہ اس نئی میڈیا پالیسی کے تحت حکومت اخبار، ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا میں شائع ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی اور سرکاری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ فرضی خبر کون سی ہے اور سماج مخالف یا پھر ملک مخالف رپورٹنگ کون سی ہے؟۔