سی بی آئی کی ایک عدالت نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید کی دختر ربیعہ سعید کو 15جولائی کو عدالت میں حاضر ہونے کے لیے سَمن جاری کیا ہے۔ رُبیعہ سعید کو سنہ 1989میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں نے اغوا کیا تھا جس کے بعد ان کی رہائی کے بدلے اس تنظیم کے پانچ ارکان رہا کئے گئے تھے۔
سی بی آئی نے انہیں اغوا کے کیس کے سلسلے میں حاضر ہونے کے لیے سمن جاری کیا ہے اور 15 جولائی کو خصوصی عدالت میں بیان دینے کے لیے کہا ہے۔ اغوا کے صرف پانچ روز قبل ربیعہ سعید کے والد مفتی محمد سعید نے بھارت کے پہلے مسلم وزیر داخلہ کے طور حلف لیا تھا۔ ربیعہ سعید سرینگر کے میڈیکل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ تھیں۔ وہ کالج سے ایک مسافر بس میں اپنی رہائش گاہ واقع نوگام کی طرف جارہی تھیں جب عسکریت پسندوں نے ان کی گاڑی کو روکا اور بندوق کی نوک پر انہیں اغوا کر لیا۔
اغوا کنندگان میں اسوقت لبریشن فرنٹ کے لیڈر اشفاق مجید وانی بھی شامل تھے جنہیں بعد میں سکیورٹی فورسز نے ایک مقابلے میں ہلاک کیا۔ جموں و کشمیر میں اس وقت فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی سرکار قائم تھی۔ فاروق عبداللہ نے اپنے انٹرویوز میں کہا کہ وہ ربیعہ سعید کی رہائی کے بدلے میں عسکریت پسندوں کی رہائی کے حامی نہیں تھے اور انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس سے عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: Yasin Malik Sentence: یاسین ملک کو عمر قید کی سزا
لیکن مرکزی حکومت نے عسکریت پسندون کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی اور کئی روز کے ڈرامہ کے بعد بالاًخر ربیعہ سعید کو اغواکاروں نے رہا کیا، جب کہ حکومت نے اس کے عوض پانچ جے کے ایل ایف کارکنوں کو رہا کیا جن میں عبدالحمید شیخ، شیر خان اور نور محمد کلوال شامل تھے۔ حمید شیخ کو بھی رہائی کے بعد سکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا۔ عسکریت پسندوں کی رہائی کے بعد اس وقت سرینگر میں جشن منایا گیا تھا۔