اننت ناگ: وادی کشمیر کو صدیوں سے پیروں، فکیروں اور اولیا کاملین کی سرزمین تصور کیا جاتا ہے۔کشمیر میں کئی اولیائے کرام کے مقبرے آج بھی قائم ہیں جن کے بدولت آج بھی لوگ زیارتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔عقیدت مند ہر سال اولیا کاملین کی یاد میں عرس مناتے ہیں جس میں وادی کشمیر کے اطراف و اکناف سے سیکنڑوں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دیکر من کی مراد پاتے ہیں۔
ان ہی درگاہوں میں طرح بابا داؤد گوہنیؒ کی درگاہ بھی شامل ہے جہاں پر حال ہی میں عرس منایا گیا۔ یہ عرس ہر برس جولائی کے مہینے میں منایا جاتا ہے جبکہ بابا کے آستانے پر سالانہ عرس میں کئی دنوں تک درود اذکار، شب خوانی کی محفلوں کے ساتھ ساتھ لنگر کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔اس میں مقامی لوگوں کا ایک قلیدی رول رہتا ہے۔
وہی اس عرس میں نہ صرف مسلم عقیدت مند اپنی عقیدت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ غیر مزہبی لوگ بھی کثیر تعداد میں بابا داؤد کی درگاہ پر حاضری دے کر عرس میں شمولیت کرتے ہیں۔
تاریخی قصبہ اننت ناگ سے تقریباً 32 کلومیٹر کی دوری پر واقع گوہن نامی قدرتی لحاظ سے کافی خوبصورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ بابا داوؤد گوہنی ساڑھے سات سو برس قبل صوبہ جموں کے ضلع کشتواڑ کے پلمر نامی علاقے سے ہجرت کر کے اننت ناگ کے وانگام کوکرناگ میں تشریف لائے۔
یہ بھی پڑھیں:Youth Conclave کھیلوں، ثقافتی شوز اور دیگر تہواروں کا مشاہدہ کے لیے لال درمن میں یوتھ کنکلیو
واضع رہے کہ بابا داوؤد گوہنیؒ کوکرناگ کے وانگام کے مقام پر اس دار فانی سے رخصت ہوئے اور بابا داوؤڈ گوہنی کو پہاڑی پر دفن کیا گیا، جس کے بعد مذکورہ علاقے کا نام بابا داوؤد گوہنی کے نام پر (گوہن) رکھا گیا، جو آج بھی بابا کے عقیدے کی عکاسی کرتا ہے۔