ETV Bharat / state

کشمیر میں نامساعد حالات کے چار ماہ مکمل - کشمیر میں 5 اگست سے چلے آرہے نامساعد حالات

کشمیر میں 5 اگست سے چلے آرہے نامساعد حالات کے آج چار ماہ مکمل ہو گئے ہیں اور اس دوران غیر یقینی صورتحال اور تذبذب کا ماحول بر قرار ہے۔

کشمیر میں نامساعد حالات کے چار ماہ مکمل
کشمیر میں نامساعد حالات کے چار ماہ مکمل
author img

By

Published : Dec 6, 2019, 7:03 PM IST



ان ایام میں زندگی کا ہرشعبہ بندشوں اور غیر اعلانیہ ہڑتال سے بری طرح متاثر رہا خاص طور سے انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے تاجر، طلبا اور صحافیوں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہیں 5 اگست سے کشمیر میں تمام طرح کی سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔

کشمیر کی معشیت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بعد کشمیر کی معیشت کو 15،000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔

کشمیر میں نامساعد حالات کے چار ماہ مکمل

بی جے پی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ منسوخ کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو میں تقسیم کرنے کے فیصلے سے قبل ہی گورنر انتظامیہ کی جانب سے 4 اگست کی رات کو ہی وادی میں سخت ترین بندشیں نافذ کی گئیں اور ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیا۔

سیاسی رہنماؤں میں جموں و کشمیر کے تین سابق وزراء اعلیٰ بشمول نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، انکے صاحبزادے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی ہنوز قید میں ہیں۔

جموں و کشمیر کے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیاہے۔

گرچہ حکومت نے چند سیاسی رہنما بشمول پی ڈی پی کے دلاور میر، سابق وزراء غلام حسن میر اور حکیم محمد یاسین کو رہا کیا ہے، تاہم ابھی تک وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے ہیں۔

مین اسٹریم سیاسی لیڈران کے علاوہ سرکار نے5161 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔ ان گرفتاروں کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے جونیر منسٹر جی کے ریڈی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حمایتی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی کارکن شامل ہیں۔

انکے مطابق فی الوقت 609 افراد حراست میں ہیں جن میں 218 سنگ باز شامل ہیں اسکے علاوہ جموں و کشمیر سے باہر 234 کشمیری افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق سرکار ابھی تک خاموش ہے۔

گرچہ حکومت کی جانب سے بندشیں تو ہٹا دی گئی ہے لیکن سیکورٹی فورسز سڑکوں اور بازاروں میں آج بھی بدستور تعینات ہیں۔

گزشتہ چار مہینوں میں تعلیمی سرگرمیاں صرف امتحانات تک ہی محدود رہیں۔ تجارت کے علاوہ اگر کوئی شعبہ بری طرح متاثر ہوا تو وہ طلاب ہی ہیں۔

اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ حاضر رہتے ہیں لیکن طلاب ان اداروں سے غیر حاضر ہے۔ سرینگر کے سوول لاینز میں چند اسکول کھول دیے گئے ہیں لیکن بچے بغیر یونیفار کے ان اسکولوں میں حاضری دیتے ہیں۔

سرینگر کے شہر خاص میں واقع تاریخی جامع مسجدکا دروازہ ان چار ماہ میں انتظامیہ نے بند کردیا اور وہاں جمعہ سمیت پنجگانہ نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وہیں سرکار کی جانب سے پہلی بار عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر بڑے عوامی اجتماع کو روکنے کے لئے درگاہ حضرت بل میں بندشیں نافذ کی گئیں۔

بندشیں ہٹانے کے بعد بھی کشمیر میں معمول کی زندگی بحال نہیں ہو رہی ہے اور عوام کی طرف سے غیر اعلانیہ ہڑتال جاری ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال سے وادی میں ایک نیا معمول بن گیا جس دوران نظام زندگی دن کے دوپہر کو ہی ختم ہوتی ہے۔

سرینگر کے ساتھ ساتھ وادی کے دیگر اضلاع میں نئے معمول کے مطابق دکانیں اور کاروباری ادارے صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ہی کھلے رہتے ہیں۔

سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی آمد و رفت دن بھر جاری رہتی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی حرکت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں منی بس اور سومو صبح تو نظر آتی ہے لیکن دوپہر کے بعد یہ سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں۔

کشمیر جو عام طور سے تشدد کے واقعات سے بھری خبروں میں چھایا رہتا ہے، تاہم 5 اگست کے بعد تشدد کے واقعات میں بھی کمی درج کی گئی۔

پولیس کے مطابق 5 اگست کے بعد کشمیر کے شمال و جنوب میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان 10 تصادم آرائیوں میں 18 عسکریت پسند اور 5 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان چار ماہ میں کشمیر میں پانچ دھماکے بھی ہوئے جن میں دو افراد کی ہلاکت ہوئی اور 60 سے زیادہ عام شہری زخمی ہوگئے۔

نومبر کے مہینے میں ہی سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی قیادت میں ایک وفد سرینگر آیا اور یہاں کئی لوگوں سے موجودہ حالات کے متعلق جانکاری حاصل کی۔ تاہم انتظامیہ نے اس وفد کو سرینگر کے ایک نجی ہوٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔

کشمیر میں عام لوگ آج اگر کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو وہ انٹرنیٹ خدمات کی بحالی ہے۔

سرکار نے پوسٹ پیڈ موبائل سروس اکتوبر میں بحال کی تھی تاہم انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل سروس پر پابندی بدستور جاری ہے۔

انٹرنیٹ پر پابندی سے عوام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے اور تجارت کے علاوہ طلاب کی تعلیم، صحافیوں کا پیشہ ورانہ کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر گریش چندر مرمو نے حالیہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات جلد منعقد کئے جائیں گے۔ تا حال کشمیر میں تمام سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جب تک کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں بحال نہیں ہوں گی تب تک غیر یقینی صورتحال میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔



ان ایام میں زندگی کا ہرشعبہ بندشوں اور غیر اعلانیہ ہڑتال سے بری طرح متاثر رہا خاص طور سے انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے تاجر، طلبا اور صحافیوں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہیں 5 اگست سے کشمیر میں تمام طرح کی سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔

کشمیر کی معشیت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بعد کشمیر کی معیشت کو 15،000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔

کشمیر میں نامساعد حالات کے چار ماہ مکمل

بی جے پی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ منسوخ کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو میں تقسیم کرنے کے فیصلے سے قبل ہی گورنر انتظامیہ کی جانب سے 4 اگست کی رات کو ہی وادی میں سخت ترین بندشیں نافذ کی گئیں اور ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیا۔

سیاسی رہنماؤں میں جموں و کشمیر کے تین سابق وزراء اعلیٰ بشمول نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، انکے صاحبزادے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی ہنوز قید میں ہیں۔

جموں و کشمیر کے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیاہے۔

گرچہ حکومت نے چند سیاسی رہنما بشمول پی ڈی پی کے دلاور میر، سابق وزراء غلام حسن میر اور حکیم محمد یاسین کو رہا کیا ہے، تاہم ابھی تک وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے ہیں۔

مین اسٹریم سیاسی لیڈران کے علاوہ سرکار نے5161 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔ ان گرفتاروں کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے جونیر منسٹر جی کے ریڈی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حمایتی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی کارکن شامل ہیں۔

انکے مطابق فی الوقت 609 افراد حراست میں ہیں جن میں 218 سنگ باز شامل ہیں اسکے علاوہ جموں و کشمیر سے باہر 234 کشمیری افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق سرکار ابھی تک خاموش ہے۔

گرچہ حکومت کی جانب سے بندشیں تو ہٹا دی گئی ہے لیکن سیکورٹی فورسز سڑکوں اور بازاروں میں آج بھی بدستور تعینات ہیں۔

گزشتہ چار مہینوں میں تعلیمی سرگرمیاں صرف امتحانات تک ہی محدود رہیں۔ تجارت کے علاوہ اگر کوئی شعبہ بری طرح متاثر ہوا تو وہ طلاب ہی ہیں۔

اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ حاضر رہتے ہیں لیکن طلاب ان اداروں سے غیر حاضر ہے۔ سرینگر کے سوول لاینز میں چند اسکول کھول دیے گئے ہیں لیکن بچے بغیر یونیفار کے ان اسکولوں میں حاضری دیتے ہیں۔

سرینگر کے شہر خاص میں واقع تاریخی جامع مسجدکا دروازہ ان چار ماہ میں انتظامیہ نے بند کردیا اور وہاں جمعہ سمیت پنجگانہ نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وہیں سرکار کی جانب سے پہلی بار عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر بڑے عوامی اجتماع کو روکنے کے لئے درگاہ حضرت بل میں بندشیں نافذ کی گئیں۔

بندشیں ہٹانے کے بعد بھی کشمیر میں معمول کی زندگی بحال نہیں ہو رہی ہے اور عوام کی طرف سے غیر اعلانیہ ہڑتال جاری ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال سے وادی میں ایک نیا معمول بن گیا جس دوران نظام زندگی دن کے دوپہر کو ہی ختم ہوتی ہے۔

سرینگر کے ساتھ ساتھ وادی کے دیگر اضلاع میں نئے معمول کے مطابق دکانیں اور کاروباری ادارے صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ہی کھلے رہتے ہیں۔

سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی آمد و رفت دن بھر جاری رہتی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کی حرکت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں منی بس اور سومو صبح تو نظر آتی ہے لیکن دوپہر کے بعد یہ سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں۔

کشمیر جو عام طور سے تشدد کے واقعات سے بھری خبروں میں چھایا رہتا ہے، تاہم 5 اگست کے بعد تشدد کے واقعات میں بھی کمی درج کی گئی۔

پولیس کے مطابق 5 اگست کے بعد کشمیر کے شمال و جنوب میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان 10 تصادم آرائیوں میں 18 عسکریت پسند اور 5 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان چار ماہ میں کشمیر میں پانچ دھماکے بھی ہوئے جن میں دو افراد کی ہلاکت ہوئی اور 60 سے زیادہ عام شہری زخمی ہوگئے۔

نومبر کے مہینے میں ہی سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کی قیادت میں ایک وفد سرینگر آیا اور یہاں کئی لوگوں سے موجودہ حالات کے متعلق جانکاری حاصل کی۔ تاہم انتظامیہ نے اس وفد کو سرینگر کے ایک نجی ہوٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔

کشمیر میں عام لوگ آج اگر کوئی مطالبہ کرتے ہیں تو وہ انٹرنیٹ خدمات کی بحالی ہے۔

سرکار نے پوسٹ پیڈ موبائل سروس اکتوبر میں بحال کی تھی تاہم انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل سروس پر پابندی بدستور جاری ہے۔

انٹرنیٹ پر پابندی سے عوام کو کئی مشکلات کا سامنا ہے اور تجارت کے علاوہ طلاب کی تعلیم، صحافیوں کا پیشہ ورانہ کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر گریش چندر مرمو نے حالیہ دنوں ایک بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات جلد منعقد کئے جائیں گے۔ تا حال کشمیر میں تمام سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جب تک کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں بحال نہیں ہوں گی تب تک غیر یقینی صورتحال میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.