دہرادون کے بابا فرید انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کی فیس کی عدم ادائیگی اور طلبہ کی کم حاضری سے متعلق معاملہ حل کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وازات برائے فروغ انسانی وسائل کی مداخلت کے بعد اتراکھنڈ کے عہدیداروں نے کالج کا معائنہ کیا۔ اس کے علاوہ مرکزی وزیر کی مداخلت کے بعد اتراکھنڈ حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی نے بابا فرید انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کا دورہ کیا اور وہاں تمام فریقوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے دیکھا کہ صرف بابا فرید انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں فیس دیر سے جمع کروانے پر تین کشمیری طلباء سے 30، 40، 60 روپے جرمانہ وصول کیا گیا تھا اور دیگر اداروں نے کشمیری طلباء سے ایسی کوئی فیس وصول نہیں کی تھی۔
وادی کشمیر سے باہر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو 5 اکست کے بعد مواصلاتی نظام پر عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ رابطہ کرنے میں دشواریاں ہوئیں جبکہ بیشتر طلبہ فیس کی آن لائن ادائیگی بھی نہیں کر پائے ہیں۔ کئی طلبہ جو اپنے گھروں میں گئے تھے، وقت پر لوٹ نہیں سکے ہیں۔
واضح ہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو منسوخ اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کا اعلان کیاتھا جس کے بعد پوری کشمیر وادی اور جموں خطوں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں جس سے نظام زندگی مکمل طور درہم برہم ہوگیا۔ چار ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کشمیر میں معمول کی زندگی بحال نہیں ہورہی ہے۔