ETV Bharat / state

تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت پی ایس اے کے تحت بند - ریاستوں کےجیلوں

جموں و کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت ایک ایسے قانون کے تحت نظر بند کردئے گئے ہیں جسکا استعمال انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہزاروں سیاسی مخالفین کے خلاف کیا تھا۔

تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت پی ایس اے کے تحت بند
تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت پی ایس اے کے تحت بند
author img

By

Published : Feb 7, 2020, 3:08 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 12:52 PM IST

حکام نے جمعرات کو سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے عائد کیا تاکہ انکی مدت نظربندی طویل کی جاسکے۔

پی ایس اے، ایک ایسا قانون ہے جسکے تحت حکام کسی بھی شخص کو کم از کم چھ ماہ کیلئے بغیر مقدمہ چلائے نظر بند رکھ سکتے ہیں۔ یہ قانون اصل میں 1978 میں جنگلات سے غیرقانونی طور لکڑیاں کاٹنے اور اسکی اسمنگلنگ کرنے والوں کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسکا استعمال سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کیلئے کیا جاتا رہا۔

عمر عبداللہ، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر ہیں جبکہ محبوبہ مفتی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر ہیں۔ یہ دونوں رہنما جموں و کشمیر کے آخری دو وزرائے اعلیٰ ہیں۔

تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت پی ایس اے کے تحت بند

اس سے قبل حکام نے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر گزشتہ برس 16 اکتوبر سے پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا تھا۔

حکام نے پی ڈی پی کے سینیئر لیڈر سرتاج مدنی جوکہ محبوبہ مفتی کے ماموں بھی ہیں، پر بھی پی ایس اے لگایا ہے۔

یہ سبھی رہنما گزشتہ برس 4 اگست کی شام سے ہی حراست میں لئے گئے تھے۔ انکی حراست کے اگلے روز 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آیئینی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔

ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی پسند جماعتوں بشمول حریت کانفرنس، جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کے بیسیوں کارکنوں اور لیڈرز کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام نے سرکردہ تاجروں اور وکلا کو بھی حراست میں لیا۔
کٸی رہنماٶں اور عام شہریوں کو ملک کی دیگر ریاستوں کے جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

گزشتہ برس کے 23 دسمبر کو ہندوارہ علاقے سے تعلق رکھنے والے غلام احمد بٹ نامی ایک قیدی کی جیل میں موت ہوٸی تھی۔ غلام احمد بٹ کو بھی 5 اگست کے فیصلے کے بعد پی ایس اے کے تحت گرفتار کر کے اترپردیش کے آگرہ جیل منتقل کیاگیا تھا۔

حکام نے کئی ماہ کی گرفتاری کے بعد بعض لیڈروں کو رہا کردیا ہے۔

ذراٸع سے ملی جانکاری کے مطابق ابھی تک جن سیاسی رہنماٶں کو رہا کیا گیا انہیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں اور 370 کے متعلق کسی طرح کا بیان نہ دیں۔ اس بارے میں ان سے ایک بانڈ لیا گیا ہے۔

ذراٸع نے بتایا کہ دس رہنماٶں کو نظر بند رکھا جائے گا اور ان کی رہاٸی کے متعلق کوٸی بھی اطلاع نہیں ہے۔

ادھر گزشتہ روز وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں اپنے خطاب کے دوران کشمیر کے چند بڑے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کو جائز ٹھہرایا۔وزیر اعظم نے کہا کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی رہاٸی فی الحال نہیں ہوگی۔

حکام نے جمعرات کو سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے عائد کیا تاکہ انکی مدت نظربندی طویل کی جاسکے۔

پی ایس اے، ایک ایسا قانون ہے جسکے تحت حکام کسی بھی شخص کو کم از کم چھ ماہ کیلئے بغیر مقدمہ چلائے نظر بند رکھ سکتے ہیں۔ یہ قانون اصل میں 1978 میں جنگلات سے غیرقانونی طور لکڑیاں کاٹنے اور اسکی اسمنگلنگ کرنے والوں کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسکا استعمال سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کیلئے کیا جاتا رہا۔

عمر عبداللہ، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر ہیں جبکہ محبوبہ مفتی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر ہیں۔ یہ دونوں رہنما جموں و کشمیر کے آخری دو وزرائے اعلیٰ ہیں۔

تین سابق وزرائے اعلیٰ بیک وقت پی ایس اے کے تحت بند

اس سے قبل حکام نے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر گزشتہ برس 16 اکتوبر سے پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا تھا۔

حکام نے پی ڈی پی کے سینیئر لیڈر سرتاج مدنی جوکہ محبوبہ مفتی کے ماموں بھی ہیں، پر بھی پی ایس اے لگایا ہے۔

یہ سبھی رہنما گزشتہ برس 4 اگست کی شام سے ہی حراست میں لئے گئے تھے۔ انکی حراست کے اگلے روز 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آیئینی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔

ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی پسند جماعتوں بشمول حریت کانفرنس، جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کے بیسیوں کارکنوں اور لیڈرز کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام نے سرکردہ تاجروں اور وکلا کو بھی حراست میں لیا۔
کٸی رہنماٶں اور عام شہریوں کو ملک کی دیگر ریاستوں کے جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

گزشتہ برس کے 23 دسمبر کو ہندوارہ علاقے سے تعلق رکھنے والے غلام احمد بٹ نامی ایک قیدی کی جیل میں موت ہوٸی تھی۔ غلام احمد بٹ کو بھی 5 اگست کے فیصلے کے بعد پی ایس اے کے تحت گرفتار کر کے اترپردیش کے آگرہ جیل منتقل کیاگیا تھا۔

حکام نے کئی ماہ کی گرفتاری کے بعد بعض لیڈروں کو رہا کردیا ہے۔

ذراٸع سے ملی جانکاری کے مطابق ابھی تک جن سیاسی رہنماٶں کو رہا کیا گیا انہیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں اور 370 کے متعلق کسی طرح کا بیان نہ دیں۔ اس بارے میں ان سے ایک بانڈ لیا گیا ہے۔

ذراٸع نے بتایا کہ دس رہنماٶں کو نظر بند رکھا جائے گا اور ان کی رہاٸی کے متعلق کوٸی بھی اطلاع نہیں ہے۔

ادھر گزشتہ روز وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں اپنے خطاب کے دوران کشمیر کے چند بڑے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کو جائز ٹھہرایا۔وزیر اعظم نے کہا کہ جموں و کشمیر سمیت ملک کے کسی بھی حصہ کے حالات بگڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنیت قابل قبول نہیں ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیر کے عوام پر اعتماد نہیں تھا۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی رہاٸی فی الحال نہیں ہوگی۔

Intro:Body:

df


Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 12:52 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.