اس عرس کے دوران ہونے والے زول کی تقریبات کو بھی موخر کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں درگاہ بابا سخی زین الدین ولی عیشمقام کی انتظامیہ کمیٹی اور وقف بورڈ نے مشترکہ طور پر چند روز قبل ایک نوٹس جاری کیا تھا جس کے تحت شب دوم یعنی شب خوانی اور روایتی زول سے جڑی تمام سرگرمیاں موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
درگاہ انتظامیہ کی جانب سے درگاہ کے اندر جانے والے تمام دروازوں کوتالا بند کیا گیا ہے وہیں پولیس کی جانب سے درگاہ جانے والے تمام راستوں کو بھی سیل کیا گیا ہے۔
انتظامیہ کمیٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ عوام نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنے بھرپور تعاون سےنوازا ہے جس کو لے کر وہ لوگوں کے مشکور ہیں۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ' انہوں نے اپنی زندگی کے دوران آج پہلی بار ایسا دیکھا ہے کہ جب یہ مقدس عرس منعقد نہیں ہوا ہے۔اس مقام پر آج کے اس عظیم موقع پر زائرین کا اتنی بییڑ رہتی تھی کہ پاؤں ٹکانا بھی مشکل ہوتا تھا تاہم آج یہ مقام ویرانی کا منطر پیش کر رہا ہے جس بازار میں خریداری کرنے اور درگاہ کے صحن میں تبرکات حاصل کرنے کے لئے زائرین کو گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ آج وہاں چاروں اور خاموشی چھائی ہوئی ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس مقدس موقع پر اپنے گھروں کے اندر ذکرو ازکار اور روایتی زول کا اہتمام کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کریں گے اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرین گے تاکہ دنیا کو کورونا وائرس کے وبا سے چھٹکارا ملے۔
واضح رہے کہ ولی کامل سخی زین الدین ولی رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ وادی کے بڑے اور عظیم درگاہوں میں شمار ہوتا ہےیہاں سال بھر ملک و وادی کے مختلف حصوں سے بلا مذہب و ملت زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے...درگاہ پر ہر برس رواں ماہ کے دوران شب دوم یعنی شب خوانی اور اس کے اگلے روز زول(چراغاں) کا اہتمام کیا جاتا ہےجس میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند شرکت کرکے ولی اللہ کے تعین عقیدت کا اظہار کرتے ہیں...زائرین اس روز اپنے ساتھ لکڑی کے مشعل ساتھ لاتے ہیں اور شام کے اوقات کے دوران انہیں جلا کر سخی زین الدین ولی کے کمالات اور یاد خداوندی کے جذبات کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مقامی بزگوں کے مطابق دراصل ایک زمانے میں اس علاقہ میں ایک آدم خور جن (دیو) نے ظلم ڈھا کر لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ اس جن نے عیشمقام کی پہاڑی میں ایک غار میں پناہ لی تھی... تاہم ایک روز ایک نوجوان نے اُس جن کا خاتمہ کیا اور پوری بستی ظلم و جبر سے آزاد ہوگئ جس کے بعد لوگوں نے شادیانے (خوشی) کے طور لڑیاں جلا کر پورے علاقے کو چراغاں کیا۔ تب سے وہ روایت جاری رہی اور اسے کشمیری میں زول کا نام دیا گیا... دراصل وہ نوجوان سخی زین الدین ولی تھے۔ بعد میںوہ اُسی جن کی غار میں یاد خداوندی میں مشغول ہو گئے۔ اَسی غار میں ان کا مقبرہ بھی موجود ہے۔