ETV Bharat / state

' شہر خاموش ہے، دکانیں کھلتی نہیں اور فصلیں برباد ہوگئیں '

وادی کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سماجی کارکنوں نے دعوی کیا ہے کہ ' وادی میں حالات کافی خراب ہیں۔ لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں اور متعدد وکلاء کو بھی جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔'

پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم سعیدہ حمید
author img

By

Published : Sep 24, 2019, 5:23 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 8:26 PM IST

پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم سعیدہ حمید کی قیادت میں پانچ خواتین پر مشتمل ایک وفد نے 17ستمبر سے 21 ستمبر تک کشمیر کے تین اضلاع کے 51 گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی جانچ رپورٹ جاری کی ہے۔

اس ٹیم میں نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن کی جنرل سکریٹری اینی راجا‘ پرگتی شیل مہیلا سنگٹھن کی جنرل سکریٹری پونم کوشک‘ پنجاب یونیورسٹی سے سبکدوش پروفیسر کنول جیت کور اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر پنکھڑی ظہیر نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وادی کی صورتحال کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ' 51ویں دن بیت جانے کے بعد بھی صورتحال معمول پر آنے کے کوئی آثآر نہیں ہیں اور حکومت کے تمام دعوے جھوٹے ہیں کیوں کہ میڈیا پر سنسرشپ جیسی صورت حال ہے اس لئے سچائی سامنے نہیں آرہی ہے۔'

شوپیاں‘ پلوامہ اور بانڈی پورہ اضلاع کا دورہ کرکے واپس آئیں ان خواتین نے کہا کہ لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں کیوں کہ فوج ان پر زیادتی کررہی ہے اور ان پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔رات آٹھ بجتے ہی سب کو اپنے گھروں کی روشنی بجھا دینی پڑتی ہے اور دکانیں‘ کالج سے لے کر پورا شہر بند پڑا ہے۔ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی ذرائع بند ہیں جس سے لوگو ں کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہوگئی ہے۔

مسلم وومنز فورم کی سعیدہ حمید نے کہا کہ وہ سب وہاں سے انتہائی دل گرفتہ ہوکر لوٹی ہیں۔ حالات کو دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پورا شہر خاموش ہے‘ دکانیں نہیں کھلتی ہیں‘فصلیں برباد ہوگئی ہیں‘ سیب بھی تباہ ہوگئے ہیں اور دس سے بارہ سال سے لے کر 22-24 برس کے 13ہزار لڑکے غائب ہوگئے ہیں اور ان کے گھر والوں کو پتہ نہیں ہے کہ فوج کے جوان ان کے بچوں کو کہاں لے گئے ہیں۔

کشمیر میں پیدا ہوئی محترمہ حمید نے کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ترقی نہیں ہوئی ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ 1934 سے ہی وہاں تعلیم کی ترقی ہوئی ہے اور ترقی کے کئی پیمانوں پر کشمیر دیگر ریاستوں سے بہتر ہے۔

پیشے سے وکیل پونم کوشک نے کہا کہ' کشمیر بار ایسوسی ایشن کے دفتر پر تالا لگا ہوا ہے اور وکیلوں کو پیپلز سیکورٹی قانون میں گرفتار کرکے آگرہ‘ جالندھر‘ فریدآباد کی جیلوں میں قیدر کھا گیا ہے اور ان کے گھروالوں کو نہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس جیل میں ہیں۔'

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی خواتین تنظیم سے وابستہ اینی راجا نے کہا کہ ان کی ٹیم نے کسانوں‘ وکیلوں‘ ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ اسکول کالجوں کے طلبہ اور پروفیسروں اور خواتین خانہ سے بھی ملاقات کی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ انہیں مرکزی حکومت نے دھوکہ دیا ہے اور فوج ان پر ظلم و زیادتی کررہی ہے۔ لوگوں میں فوج کے تئیں کافی غصہ ہے۔
ان خواتین کارکنوں نے گرفتار افراد کو فوراً رہا کرنے‘ جھوٹے ایف آئی آر رد کرنے‘ صورت حال کو معمول پر لانے‘مواصلاتی نظام بحال کرنے اور فوج کی ظلم و زیادتی کی انکوائری کرانے او ردفعہ 370کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اور معروف ماہر تعلیم سعیدہ حمید کی قیادت میں پانچ خواتین پر مشتمل ایک وفد نے 17ستمبر سے 21 ستمبر تک کشمیر کے تین اضلاع کے 51 گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد اپنی جانچ رپورٹ جاری کی ہے۔

اس ٹیم میں نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن کی جنرل سکریٹری اینی راجا‘ پرگتی شیل مہیلا سنگٹھن کی جنرل سکریٹری پونم کوشک‘ پنجاب یونیورسٹی سے سبکدوش پروفیسر کنول جیت کور اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر پنکھڑی ظہیر نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وادی کی صورتحال کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ' 51ویں دن بیت جانے کے بعد بھی صورتحال معمول پر آنے کے کوئی آثآر نہیں ہیں اور حکومت کے تمام دعوے جھوٹے ہیں کیوں کہ میڈیا پر سنسرشپ جیسی صورت حال ہے اس لئے سچائی سامنے نہیں آرہی ہے۔'

شوپیاں‘ پلوامہ اور بانڈی پورہ اضلاع کا دورہ کرکے واپس آئیں ان خواتین نے کہا کہ لوگ فوج کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں کیوں کہ فوج ان پر زیادتی کررہی ہے اور ان پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔رات آٹھ بجتے ہی سب کو اپنے گھروں کی روشنی بجھا دینی پڑتی ہے اور دکانیں‘ کالج سے لے کر پورا شہر بند پڑا ہے۔ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی ذرائع بند ہیں جس سے لوگو ں کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہوگئی ہے۔

مسلم وومنز فورم کی سعیدہ حمید نے کہا کہ وہ سب وہاں سے انتہائی دل گرفتہ ہوکر لوٹی ہیں۔ حالات کو دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پورا شہر خاموش ہے‘ دکانیں نہیں کھلتی ہیں‘فصلیں برباد ہوگئی ہیں‘ سیب بھی تباہ ہوگئے ہیں اور دس سے بارہ سال سے لے کر 22-24 برس کے 13ہزار لڑکے غائب ہوگئے ہیں اور ان کے گھر والوں کو پتہ نہیں ہے کہ فوج کے جوان ان کے بچوں کو کہاں لے گئے ہیں۔

کشمیر میں پیدا ہوئی محترمہ حمید نے کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ترقی نہیں ہوئی ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ 1934 سے ہی وہاں تعلیم کی ترقی ہوئی ہے اور ترقی کے کئی پیمانوں پر کشمیر دیگر ریاستوں سے بہتر ہے۔

پیشے سے وکیل پونم کوشک نے کہا کہ' کشمیر بار ایسوسی ایشن کے دفتر پر تالا لگا ہوا ہے اور وکیلوں کو پیپلز سیکورٹی قانون میں گرفتار کرکے آگرہ‘ جالندھر‘ فریدآباد کی جیلوں میں قیدر کھا گیا ہے اور ان کے گھروالوں کو نہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس جیل میں ہیں۔'

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی خواتین تنظیم سے وابستہ اینی راجا نے کہا کہ ان کی ٹیم نے کسانوں‘ وکیلوں‘ ڈاکٹروں‘ نرسوں‘ اسکول کالجوں کے طلبہ اور پروفیسروں اور خواتین خانہ سے بھی ملاقات کی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ انہیں مرکزی حکومت نے دھوکہ دیا ہے اور فوج ان پر ظلم و زیادتی کررہی ہے۔ لوگوں میں فوج کے تئیں کافی غصہ ہے۔
ان خواتین کارکنوں نے گرفتار افراد کو فوراً رہا کرنے‘ جھوٹے ایف آئی آر رد کرنے‘ صورت حال کو معمول پر لانے‘مواصلاتی نظام بحال کرنے اور فوج کی ظلم و زیادتی کی انکوائری کرانے او ردفعہ 370کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

Intro:Body:

syeda hameed on kashmir situation: situation in kashmir valley is not normal


Conclusion:
Last Updated : Oct 1, 2019, 8:26 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.