جموں و کشمیر تنظیم نو 2019 کا قانون لاگو ہونے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر اور لداخ مرکز کے زیرانتظام دو علاقوں میں منقسم ہو گیا ہے۔
مرکز کے زیرانتظام علاقے جموں و کشمیر کے نو منتخب لیفٹیننٹ گورنر گریش چندر مرمو نے آج سرینگر کے راج بھون میں حلف لیا اور اس کے بعد سرینگر کے سول سکریٹریٹ کا دورہ کیا۔
مرکزی حکومت کے اس تاریخی اور متنازع فیصلے سے جہاں 5 اگست سے ہی یہاں کے اصل باشندے کشمیری غیریقینی صورتحال سے دو چار ہیں۔ وہیں وہ اس فیصلے سے نہ صرف ناخوش بلکہ شدید ناراض اور برہم بھی ہیں اور اسی غصے میں وہ اپنی دکانیں و کاروباری ادارے بند کرکے اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔
ایک مقامی روزنامے کے مدیر و سینیئر صحافی طاہر محی الدین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'جموں و کشمیر کو ریاست سے مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں تبدیل کرنا، یہاں کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'جب تک یہاں سیاسی سرگرمیوں کو بحال نہیں کیا جاتا اور سیاسی رہنماؤں کو قید سے رہا نہیں کیا جاتا تب تک امن بحال نہیں ہو سکتا نیز مرکزی حکومت کے تعمیر و ترقی کے دعوے بے معنی ہی ہوں گے۔'
وادی کی آئندہ صورتحال کے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے طاہر محی الدین نے کہا کہ 'یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حالات کس جانب کروٹ لیں گے۔'
دفعہ 370 کی منسوخی کے فوراً بعد حکومت نے وادی کشمیر میں بندشیں عائد کرنے کے علاوہ مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا اور ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنما بشمول تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو نظر بند کر رکھا ہے۔
حالانکہ انتظامیہ نے اب پوسٹ پیڈ موبائل خدمات بحال کر دیا ہے لیکن انٹرنیٹ اور پری پیڈ فون خدمات ہنوز بند ہیں۔
حکومت نے ستمبر کے مہینے میں کہا تھا کہ بندشیں ہٹائی گئی ہیں لیکن وادی میں عوام نے دکانیں اور کاروباری ادارے کھولنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ بی جے پی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج ہے۔'
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے سرینگر کے ایک شہری ذوالفقار علی نے کہا کہ 'کشمیر میں جاری غیر یقینی صورتحال سے لوگ مضطرب ہیں۔'
انہوں نے ریاست کی تقسیم کے مرکزی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس فیصلے سے عوام کو گزشتہ تین مہینوں سے گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔'
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے وکیل بابر قادری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'مودی حکومت نے جموں و کشمیر میں 'ہیلنگ ٹچ ' اور سیاسی پیکیج کے بجائے اپنا سیاسی ایجنڈا نافذ کیا ہے۔'
جن لوگوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کی انہوں نے یک زبان کہا کہ 'ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں منقسم کرنا کشمیریوں کے لیے ناقابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی بھی ہے۔'