علاقے میں پل نہ ہونے پر مقامی لوگوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ۔ مقامی باشندہ جہانگیر احمد کے مطابق' بیدار پرائمری سکول کی پہلے تو چھت ہی نہیں تھی۔ اب اس کام تو شروع ہوا ہے لیکن آج ہمارے بچوں کو دریا پار کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ کیوں کہ یہاں کا پل گزشتہ چند ماہ سے سڑک نکالتے ہوئے تباہ و برباد کردیا کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ' یہاں تک کہ پل سے محلہ باغاں اسکول کا راستہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اب نہ دریا پار کرنے کی گنجائش اور نہ چلنے کے لئے راستہ ہے صبح بچوں کو لانا پڑتا ہےاور شام تک انتظار کرکے لے جانا پڑتا ہے۔
سماجی کارکن تنویر احمد تانترے نے کہا کہ' افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باغاں سے چھمر کناری سڑک کا کام گزشتہ پانچ چھ ماہ سے لگایا گیا ہے۔ تب سے ہی محلہ باغاں کےلوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہواہے۔'
تنویر احمد تانترے کے مطابق سڑک نکالتے وقت ٹھیکدار اور انتظامیہ نے وعدہ کیا تھاکہ چند ہی روز میں پُل جو ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہواہے۔ اور راستہ بھی ختم ہوا ہے پُل کی دوبارہ مرمت کی جائے گی اور راستہ بھی بنا کر دیا جائے گا لیکن آج پانچ چھ ماہ گزر جانے کے بعد بھی نہ ہی پل کی مرمت ہوسکی اور نہ ہی راستہ بنایا گیا۔'
انہوں نے کہا کہ ' اس دوران مقامی لوگوں نے پیڑ کاٹ کر لکڑی کا عارضی پل بنایا جس کی وجہ سے یہاں کی مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ پرائمری سکول باغاں میں آنے والے بچوں کو سخت پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔'
تنویر نے کہا کہ اس وقت دریا کو پار کرتے وقت کسی بچے کا نقصان ہوتا ہے تو اس صورت میں کون ذمہ دار ہوگا۔