ETV Bharat / state

'سیاسی جماعتیں قربانی کا بکرا بن چکی ہیں'

محبوبہ مفتی نے الزام عائد کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ہندنواز سیاسی جماعتوں کو مرکز کی جانب سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

' جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں قربانی کا بکرا'بن چکی ہیں'
' جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں قربانی کا بکرا'بن چکی ہیں'
author img

By

Published : Jan 3, 2021, 5:45 PM IST

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اتوار کے روز کہا کہ ہندنواز سیاسی جماعتیں 'قربانی کا بکرا'بن چکی ہے۔'

تاہم پی ڈی پی کی صدر نے کہا کہ 'ہم دفعہ 370 کی بحالی کے لئے 'طویل اور مشکل سیاسی لڑائی' کے لیے تیار ہیں جسے غیر قانونی طور پر منسوخ کردیا گیا تھا۔'

محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'افسوس کی بات یہ ہے کہ قومی دھارے میں شامل سیاسی پارٹیاں قربانی کا بکرا بن گئی ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا 'سچ تو یہ ہے کہ ہم دہلی کی طرف سے پاکستان نواز ہونے اور کشمیر سے بھارت نواز اور کشمیر مخالف ہونے کے الزامات میں اپنی پوری سیاسی زندگی گزاریں گے۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'پی ڈی پی اور چھ دیگر قومی دھارے میں شامل جماعتیں جو حال ہی میں گپکار الائنس (پی اے جی ڈی) کی تشکیل کے لئے اکٹھی ہوئی ہیں، نے صرف جمہوریت اور پرامن طریقے سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے لڑنے کا عزم کیا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت اب بھی ہمارے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اختلاف رائے کو مجرمانہ عمل بنا رہی ہے۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'اگر پارلیمنٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا، تو ہم لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر شہریت ترمیمی قانون یا زرعی ایکٹ جیسے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔جو چیز ہم سے غیر آئینی طور پر چھینی گئی تھی اسے واپس کرنا پڑے گا، لیکن ایک طویل اور مشکل لڑائی ہوگی۔'

سابق وزیر اعلی نے کہا کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے نتائج، جس میں پی اے جی ڈی نے 280 میں سے 112 نشستیں حاصل کیں، لوگوں کی طرف سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کی واضح تردید ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈی ڈی سی انتخابات ہمارے سامنے ایک چیلنج تھا اور ہمارے لیے انتخابی مہم کے دوران مشکلات پیدا کی گئی۔ ہم نے پھر بھی ہار نہیں مانی اور ہم نے بی جے پی کو لوگوں کو تقسیم کرنے سے روکا۔'

انہوں نے کہا کہ 'لیکن بی جے پی نے انتخابات میں دفعہ 370 کو مسئلہ بنا کر اس کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیا۔ لہذا لوگوں نے ہمارے اتحاد کو بڑے پیمانے پر ووٹ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'دفعہ 370 کو ختم اور ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے سے لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس نے مسئلہ کشمیر کو مزید پیچیدہ بناتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام کو ملک سے الگ کردیا ہے۔'

جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد کے بارے میں پوچھے جانے پر محبوبہ نے کہا کہ 'میرے والد (مفتی سعید) نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور بڑے مقصد کے لئے اتحاد کے ذریعے بی جے پی کو شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔'

انہوں نے کہا کہ 'وہ 2018 میں اتحاد کو توڑنے کے بی جے پی کے فیصلے سے مایوس نہیں ہیں اور انہیں (بی جے پی) یہ احساس ہوگیا تھا کہ میں کشمیر کی صورتحال سے نمٹنے میں نرمی کر رہی ہوں۔'

بی جے پی نے جون 2018 میں پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد سے دستبرداری اختیار کی تھی جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سابق ​​ریاست کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا گیا اور اس کو جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعلی نے یہ بھی کہا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ تحقیقات ایجنسیز ان کے والد مفتی محمد سعید کے مقبرے کا 'آڈٹ' کر رہی ہیں۔

ان کی پارٹی کے یوتھ ونگ رہنما وحید پرہ کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعہ گرفتار کرنے کے بعد اپنے پہلے ردِ عمل میں محبوبہ نے کہا کہ تحقیقات ایجنسیز گذشتہ دو برسوں سے سرکاری فائلز اور ان کے بینک اکاونٹز کی تحقیقات کررہی ہیں اور انہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا ہے۔'

محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے دور حکومت میں جموں و کشمیر بینک میں مبینہ طور ہوئی بدعنوانی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ' انہیں ایک ہی معاملہ ثابت کرنے دیں جہاں میں یا میرے قریب کے کسی فرد نے کسی بھی طرح کی مالی بدعنوانی کی ہوں۔ میں کسی بھی فیصلے کے لیے تیار ہوں۔'

این آئی اے کے ذریعہ وحید پرہ کی گرفتاری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 'میرے خلاف کسی قسم کا بدعنوانی کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہنے کے بعد وہ(بی جے پی) مجھے شدت پسندوں کی مالی اعانت سے جوڑ کر بدنام کرنے کے دیگر طریقوں کا سہارا لے رہی ہیں۔'

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اتوار کے روز کہا کہ ہندنواز سیاسی جماعتیں 'قربانی کا بکرا'بن چکی ہے۔'

تاہم پی ڈی پی کی صدر نے کہا کہ 'ہم دفعہ 370 کی بحالی کے لئے 'طویل اور مشکل سیاسی لڑائی' کے لیے تیار ہیں جسے غیر قانونی طور پر منسوخ کردیا گیا تھا۔'

محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'افسوس کی بات یہ ہے کہ قومی دھارے میں شامل سیاسی پارٹیاں قربانی کا بکرا بن گئی ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا 'سچ تو یہ ہے کہ ہم دہلی کی طرف سے پاکستان نواز ہونے اور کشمیر سے بھارت نواز اور کشمیر مخالف ہونے کے الزامات میں اپنی پوری سیاسی زندگی گزاریں گے۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'پی ڈی پی اور چھ دیگر قومی دھارے میں شامل جماعتیں جو حال ہی میں گپکار الائنس (پی اے جی ڈی) کی تشکیل کے لئے اکٹھی ہوئی ہیں، نے صرف جمہوریت اور پرامن طریقے سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے لڑنے کا عزم کیا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت اب بھی ہمارے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اختلاف رائے کو مجرمانہ عمل بنا رہی ہے۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'اگر پارلیمنٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا، تو ہم لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر شہریت ترمیمی قانون یا زرعی ایکٹ جیسے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔جو چیز ہم سے غیر آئینی طور پر چھینی گئی تھی اسے واپس کرنا پڑے گا، لیکن ایک طویل اور مشکل لڑائی ہوگی۔'

سابق وزیر اعلی نے کہا کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی) کے انتخابات کے نتائج، جس میں پی اے جی ڈی نے 280 میں سے 112 نشستیں حاصل کیں، لوگوں کی طرف سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کی واضح تردید ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈی ڈی سی انتخابات ہمارے سامنے ایک چیلنج تھا اور ہمارے لیے انتخابی مہم کے دوران مشکلات پیدا کی گئی۔ ہم نے پھر بھی ہار نہیں مانی اور ہم نے بی جے پی کو لوگوں کو تقسیم کرنے سے روکا۔'

انہوں نے کہا کہ 'لیکن بی جے پی نے انتخابات میں دفعہ 370 کو مسئلہ بنا کر اس کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیا۔ لہذا لوگوں نے ہمارے اتحاد کو بڑے پیمانے پر ووٹ دے کر یہ واضح کردیا کہ وہ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔'

محبوبہ نے کہا کہ 'دفعہ 370 کو ختم اور ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلے سے لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس نے مسئلہ کشمیر کو مزید پیچیدہ بناتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام کو ملک سے الگ کردیا ہے۔'

جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد کے بارے میں پوچھے جانے پر محبوبہ نے کہا کہ 'میرے والد (مفتی سعید) نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور بڑے مقصد کے لئے اتحاد کے ذریعے بی جے پی کو شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔'

انہوں نے کہا کہ 'وہ 2018 میں اتحاد کو توڑنے کے بی جے پی کے فیصلے سے مایوس نہیں ہیں اور انہیں (بی جے پی) یہ احساس ہوگیا تھا کہ میں کشمیر کی صورتحال سے نمٹنے میں نرمی کر رہی ہوں۔'

بی جے پی نے جون 2018 میں پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد سے دستبرداری اختیار کی تھی جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سابق ​​ریاست کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا گیا اور اس کو جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعلی نے یہ بھی کہا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ تحقیقات ایجنسیز ان کے والد مفتی محمد سعید کے مقبرے کا 'آڈٹ' کر رہی ہیں۔

ان کی پارٹی کے یوتھ ونگ رہنما وحید پرہ کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعہ گرفتار کرنے کے بعد اپنے پہلے ردِ عمل میں محبوبہ نے کہا کہ تحقیقات ایجنسیز گذشتہ دو برسوں سے سرکاری فائلز اور ان کے بینک اکاونٹز کی تحقیقات کررہی ہیں اور انہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا ہے۔'

محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے دور حکومت میں جموں و کشمیر بینک میں مبینہ طور ہوئی بدعنوانی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ' انہیں ایک ہی معاملہ ثابت کرنے دیں جہاں میں یا میرے قریب کے کسی فرد نے کسی بھی طرح کی مالی بدعنوانی کی ہوں۔ میں کسی بھی فیصلے کے لیے تیار ہوں۔'

این آئی اے کے ذریعہ وحید پرہ کی گرفتاری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 'میرے خلاف کسی قسم کا بدعنوانی کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہنے کے بعد وہ(بی جے پی) مجھے شدت پسندوں کی مالی اعانت سے جوڑ کر بدنام کرنے کے دیگر طریقوں کا سہارا لے رہی ہیں۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.