نامور کشمیری مورخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ کے مطابق 'میون وطن' نظم میں دینا ناتھ نادم کا وطن سے مراد کشمیر تھا کیونکہ شالیمار باغ اور ڈل جھیل یہیں ہیں۔
انہوں نے یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'میون وطن ان کی ایک بہترین نظم ہے۔ ان کا وطن سے مراد کشمیر تھا۔ شالیمار اور ڈل جھیل ہندوستان میں تو نہیں تھے۔ نادم صاحب ایک کشمیر نشین شاعر تھے اور انہوں نے جو کچھ لکھا ہے کشمیر کے لئے لکھا ہے'۔
وزیر خزانہ نے ہفتہ کے روز دینا ناتھ نادم کی نظم 'میون وطن' کے ایک شعر: 'ہمارا وطن کھلتے ہوئے شالیمار باغ جیسا، ہمارا وطن ڈل لیک میں کھلتے ہوئے کمل جیسا۔۔۔۔۔نوجوانوں کے گرم خون جیسا۔۔۔۔میرا وطن، تیرا وطن، ہمارا وطن، دنیا کا سب سے پیارا وطن' کو بجٹ کی تمہید کے طور پر کشمیری اور ہندی زبان میں پڑھا۔ ان کا یہ شعر پڑھنے کا ظاہری مقصد یہ بتانا تھا کہ حکومت کا ہر ایک کام 'پیارے وطن' کے لئے ہے۔
یوسف ٹینگ کے مطابق دینا ناتھ کول نادم ایک نامور کشمیری شاعر تھے جو سری نگر کے حبہ کدل علاقے میں سال 1916 میں عالم وجود میں آگئے اور سال 1988 میں فوت ہوئے۔
انہوں نے کہا: 'دینا ناتھ کول ایک نامور کشمیری شاعر تھے۔ وہ حبہ کدل میں رہتے تھے۔ پھر وہ جواہر نگر کے کوارٹرس میں رہنے لگے تھے۔ وہ سردیوں میں جموں جاتے تھے اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا تھا۔ میں اس وقت کلچرل اکیڈیمی کا سکریٹری تھا۔ پھر ہم نے ان کی میت کو جموں سے سری نگر لایا اور کرن نگر میں واقع شمشان گھاٹ میں آخری رسومات انجام دیں۔ نادم صاحب کیمونسٹ تھے'۔
مورخین کے مطابق نادم نے اپنی والدہ سے لل دید کی شاعری سنی اور اس سے ازحد متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی، اردو اور ہندی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نادم وادی میں انیس نوے کی تیسری، چوتھی اور پانچوی دہائی کے دوران ترقیاتی تحریک کے روح رواں تھے۔
نادم کو 'شہل کول' یعنی سایہ دار نہر نامی اپنے مجموعہ کلام کے لئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سال 1986 میں سرفراز کیا گیا۔
نادم کی کشمیری زبان میں مہ چھہ آش پگہ ہچ (مجھے کل کی امید ہے)، بہ گیوہ نہ از (میں آج نہیں گائو گا) وغیرہ جیسی نظموں کو وادی کے ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی مل چکی ہے۔