بانڈی پورہ: وادی کشمیر کے نوجوان جہاں اداکاری، فلم سازی اور گلوکاری میں اپنی بھر پور صلاحیت کا مظاہرے کر کے قابل تعریف کام انجام دے رہیں۔ وہیں یہاں کے ابھرتے ہوئے گلوکار اب غزل گوئی میں بھی اپنی پہچان بنارہے ہیں۔ انہی نوجوان گلوکاروں میں شامل ہیں محمد مدثر مرغو۔
مدثر اردو اور کشمیری میں ایک الگ انداز اور مدھر آواز میں غزلیں گاتے ہیں جو کہ موسیقی شائقین کو بے حد پسند آرہی ہیں۔ اس ابھرتے ہوئے گلوکار کی گائی ہوئی کئی غزلیں منظر عام پر آچکی ہیں جنہیں لوگوں نے بے حد سراہا ہے۔
"رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے" استاد مہدی حسن کی اسی غزل نے مدثر کو بطور غزل گو پہچان دلوائی۔
شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلعے کے سوناواری علاقے سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ مدثر اسکول کے دنوں سے ہی گلوکاری، خاص غزل گائیکی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم مدثر نے بچن سے دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد دینا شروع کیا۔ حالانکہ یہ نوجوان اس گھرانے سے ہے، جس کا موسیقی یا گلوکاری کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں رہی ہے۔ ایسے میں اگرچہ انہیں اپنے اندر کے فن کو ابھارنے میں ابتدائی طور پر گھر والوں کا تعاون حاصل نہیں رہا، تاہم بعد میں والدین نے اس کی دلچپسی اور فنکارنہ صلاحیت کو پہچانتے ہوئے ساتھ دیا۔
ابھرتے ہوئے اس نوجوان گلوکار کو یہ فن سیکھنے میں ابھی تک کسی استاد کی رہنمائی یا رہبری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ البتہ یہ ملک کے نامور غزل گلوکاروں کو سن کر اپنے گلوکاری کے فن میں مزید پختگی لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس میں یہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- دونوں بازوؤں سے معذور کرکٹر عامر لون پر بالی ووڈ میں فلم بنانے کی تیاری
- ڈیٹا سائنس کی دنیا میں نام کمانے والے کشمیری نوجوان خالد وانی سے ملیے
اس ابھرتے ہوئے گلوکار کو 2021 میں اپنی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر کشمیر یونیورسٹی کے "سنزل" پروگرام میں بہترین گلوکار کے ایواڑ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ وہیں مدثر نے اب تک کئی مقابلوں اور کنسرٹز میں بھی شرکت کر کے اپنی بہترین پرفارمز پر کئی انعامات اور اعزازت اپنے نام کئے ہیں۔ وادی کشمیر کے نوجوانوں میں ہنر اور قابلیت کی کوئی کمی نہیں ہے البتہ انہیں اپنی فنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے وقت پر بہتر پلیٹ فارم مہیا کرانے کی ضرورت ہے۔