مقامی صحافی ریاض مسرور نے کہا کہ 'مقامی صحافت پر قدغن لگائی جارہی اور باہر سے صحافیو ں کو بلایا جا رہا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس سے قبل بھی کشمیر میں کرفیو جیسے حالات رہے ہیں جس دوران صحافیوں کو قومی یا بین الاقوامی اداروں کو اپنی رپورٹ بھیجنے کے مواقع فراہم کیے جاتے تھے لیکن اس بار دفعہ 144 نافذ کرکے سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، صحافی کام تو کر رہے ہیں لیکن یہ خبر پہنچانے کے لیے ان کے پاس ذرائع موجود نہیں ہے۔'
'مقامی صحافیوں کی حالت زار دیکھ کے لگ رہا ہے کہ وادی میں صحافت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔'
مقامی صحافی اشفاق تانترے نے کہا کہ 'مواصلاتی نطام پوری طرح سے درہم برہم ہے، لینڈ لائن اور براڈ بینڈ سروسز پر بھی پابندیاں عائد ہیں، جس کے سبب صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔'
'صحافیوں کا کام دنیا تک خبریں پہنچانا لیکن اب یہ ناممکن سا ہو گیا ہے، صحافت کی آزادی کو چھین لیا گیا ہے اور کرفیو پاسز کی عدم دستیابی کے باعث صحافت محدود ہوکر رہ گئی ہے۔'
صحافی بشارت مسعود نے کہا کہ 'آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ صحافیوں اور صحافت کو محصور کیا گیا ہو۔ صحافیوں کو کرفیو پاسز بھی مہیا نہیں کیے گئے ہیں، جس کے سبب انہیں چلنے پھرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔'