جموں و کشمیر میں 4 اور 5 اگست کی درمیانی رات سے حکام نے تمام مواصلاتی نظام بند کردیا ہے جس کے فوراً بعد ہزاروں فوجی اور نیم فوجی دستوں کو کرفیو اور دیگر امتناعی احکامات کے نفاذ کیلئے تعینات کیا گیا ہے۔
حکام کو خدشہ ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد آمیز مظاہرے ہوسکتے ہیں۔
ہزاروں کشمیری بھارت کی مختلف ریاستوں میں تعلیم، کاروبار اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے مقیم ہیں جنہیں اپنے کنبوں کے ساتھ رابطہ کرنے میں دشواری ہوررہی ہے۔
حیدر آباد کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک طالبہ ثنا نے ای ٹی وی وہ بھارت کو بتایا کہ انہیں اپنے والدین کی سلامتی کے بارے میں تشویش ہے کیونکہ اتوار کی شام سے انکے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
’’مجھے دن میں دس بار گھر سے فون آتے تھے۔ اب دو دن سے مجھے معلوم نہیں کہ میرے والدین کس حال میں ہیں۔ انہیں بھی میرے بارے میں تشویش ہوگی‘‘
بنگلورو میں مقیم ایک زعفران کے کشمیری تاجر محمد یونس نے بتایا کہ موبائل فون، انٹرنیٹ اور لینڈ لائن کو بند کرنا ایک ظالمانہ قدم ہے۔ ’’ہمیں حق ہے کہ ہم اپنے کشمیر کے بارے میں جانیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے‘‘۔
دلی یونیورسٹی کے طالب علم محمد عامر نے بتایا کہ انہوں نے اتوار کی شام اپنے والدین سے انتہائی جذبات میں آخری بات کی تھی۔ ’’ہمیں لگ رہا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے کچھ بڑا واقعہ ہونیوالا ہے، ہم کو لگ رہا تھا کہ شاید جنگ ہوجائے گی‘‘۔
عامر نے کہا کہ حکام کو فوری طور انٹرنیٹ اور سیل فون کیمونیکیشن بحال کرنا چاہئے۔
کئی طلبہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر اپنے کنبوں کے ساتھ عید منانے کی تیاری کررہے تھے لیکن اب وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ وہ کیسے سفر پر روانہ ہوپائیں گے۔
ثنا نے کہا کہ وہ سرینگر ائر پورٹ کے قریب ہی رہتی ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ اگر وہ سرینگر پہنچیں گی تو کیسے ائر پورٹ سے گھر تک سفر کر پائیں گی۔