واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے اگست کے پہلے ہفتے میں ریاست جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے انٹرنیٹ اور فون سروسز کو معطل کر دیا تھا۔ تب سے وادی میں انٹرنیٹ بند ہے جبکہ موبائل فون پر جزوی پابندی ہٹائی گئی ہے۔ تاہم میسیجز کی سہولت پر اب بھی پابندیاں عائد ہیں۔
ایسے میں صحافتی کام سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔نامہ نگاروں کو وقت پر اپنی رپورٹ، فوٹو یا ویڈیو بھیجنے میں شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سری نگر میں کام کرنے والے بیشتر صحافیوں کو اب انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کے لیے جموں آنا پڑتا ہے وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی تجمل حسین نے ای ٹی وی بہارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ کو بند کرنے سے دہلی اور کشمیر میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے سے یہاں کے عوام کو مالی و اقتصادی طور پر نقصان پہنچا ہے لیکن صحافیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے چونکہ کشمیر کے صحافیوں کواب 700 کلومیٹر دور جاکر انٹرنیٹ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
تجمل کا مزید کہنا تھا کہ پابندیوں کا یہ عالم ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے آزادانہ طور پر کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ " یہاں خبر کی تصدیق کرنا ایک الگ مسئلہ ہےکیونکہ یہ تو وہ مشکلات ہیں جو سرینگر میں مقیم صحافیوں کو درپیش ہیں۔ دور دراز رہنے والے بہت سے صحافیوں کا اس سے برا حال ہے۔
اور ایک کشمیری صحافی شاہد عمران کا کہنا تھا کہ ''انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحافیوں کے مشکلات کا اندازہ اسی بات سےلگا سکتے ہیں کہ ہمیں سرینگر سے جموں انٹرنیٹ خدمات کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اور میں خود اسی لئے جموں آیا کہ میں جموں آکر انٹرنیٹ کا استعمال کرکے اپنا کام کرو اب چار مہینے ہوچکے ہیں سرکار کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ خدمات بحال کرے تاکہ صحافی و عام لوگوں کو کام ملے کیونکہ اب بیشتر صحافی بے روزگار ہوئے۔